شبلی فراز صاحب اور عاصم باجوہ صاحب۔ سلام! آپ دونوں کو وزارتِ اطلاعات کی اہم ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد۔ اگر تاخیر ہوئی تو کچھ باعثِ تاخیر بھی ہوگا۔ مجھے نہیں پتا کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ فیصلہ کن کن عوامل کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ آیا یہ کوئی میڈیا کے حوالے سے بڑی ریاستی پالیسی کی تبدیلی ہے یا کچھ اور مگر لگتا ہے کہ خارجہ و داخلہ اور نیشنل سیکورٹی کے ساتھ ساتھ اب میڈیا بھی اس کیٹگری میں لے آیا گیا ہے۔ نام تو شاید تبدیل ہوتے رہیں مگر اب معاملہ دوطرفہ ہی چلے گا۔ اب کوئی سویلین حکمران اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔خیر یہ تو ہو گئیں کچھ سیاسی باتیں مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان میں کبھی کوئی میڈیا پالیسی کا اعلان ہوا ہو، اقدامات ضرور ہوتے رہتے ہیں مگر میڈیا کنٹرول کرنے کے۔
آزاد اور خودمختار میڈیا جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سب سے ضروری ہے، آپ اور آپ کی حکومت کے سامنے میری کچھ تجاویز ہیں۔۔
اول: ان قوانین کا جائزہ لیں جن کے ذریعہ میڈیا اور صحافی کی آواز دبائی جاتی ہے۔ ان میں بےشمار قوانین انگریزوں کے زمانے سے چلے آ رہے ہیں۔ انہیں ختم یا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔دوم:سرکاری اشتہارات کا کنٹرول حکومتی کنٹرول سے باہر ایک آزاد اور پروفیشنل لوگوں پر مشتمل بورڈ کے سپرد کیا جائے۔ اس سے حکومت پر ہونے والی تنقید ختم ہو گی اور کئی سو ڈمی اخبارات جو افسران کے زیر سایہ چلتے ہیں، فارغ ہو جائیں گے اور کرپشن کا راستہ بند ہوگا۔اگر آپ نے اسے درست کرلیا تو وزارت کے اندر کی کرپشن بھی ختم ہوگی۔ صوبوں میں بھی یہ معاملات بہت گڑبڑ ہیں۔ کئی مقدمات اور تحقیقات بھی ہوئی ہیں۔ سزا بہرحال کسی کو نہیں ملی۔
سوم:اس ملک میں اطلاعات تک رسائی بعض معاملات میں تو سرکار کو حاصل نہیں لوگوں کو کیا حاصل ہوگی مگر اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں کو بہ آسانی ریکارڈ اور معاملات تک رسائی حاصل ہوسکے۔حکومتوں میں شفافیت ایسے ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ ہر چیز اوپن ہو۔ کچھ صحافیوں کو دعائیں دیں کہ 2012میں وزارت اطلاعات کا سیکریٹ فنڈ سپریم کورٹ کے ذریعہ ختم کروا دیا۔ یہ کرپشن کا ایک بڑا ذریعہ تھا جس کی چابی صرف سیکرٹری اطلاعات کے پاس ہوتی تھی اور وہ جاتے ہوئے آنے والے سیکرٹری کو دے دیتا تھا۔اس پر وزیر کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا تھا۔ البتہ دونوں میں بن جائے تو کیا کہنے اور ٹھن جائے تو شکست عام طور پر وزیر کی ہوتی تھی۔ البتہ تگڑا وزیر ہو تو سیکرٹری کو جانا پڑتا ہے۔یہاں پریس انفارمیشن آفیسر بڑا طاقتور ہوتا ہے۔ چہارم:ہر حکومت پر یہ بجا طور پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پاکستان اور سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی ہے۔
ابھی حال ہی میں پی ٹی وی کی فیس میں بھی اضافہ کیاگیاہے۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں بہتری آئی ہے مگر نیوز یا خبروں کا معاملہ ویسا ہی ہے۔اسے بی بی سی ماڈل پر چلانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بھی نجی چینلوں کا مقابلہ کرسکے۔۔ریڈیو اور اے پی پی کو بھی غیرجانبدار بنانے کی ضرورت ہے۔۔
پنجم: کسی بھی انسان کا قتل حکومت اور ریاستی نظام پر سوالیہ نشان ہوتا ہے کیونکہ جان و مال کا تحفظ بھی اس کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔اس ملک کا صحافی ریاستی اور غیر ریاستی اداروں اور جماعتوں کا نشانہ رہا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان صحافیوں کیلئے پانچ خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔یہ صورتحال نائن الیون کے بعد بدترین صورت اختیار کرگئی اور اب تک 125 صحافی اس کا نشانہ بنے جن میں سے صرف تین صحافیوں کے مبینہ قاتل گرفتار ہوئے اور مقدمات چلے اور اب اپیل کے مرحلے میں ہیں۔۔ پچھلی حکومتوں کو بھی یہ تجویز دی گئی تھی اور آپ سے بھی اتنی سی گزارش ہے کہ صحافیوں کے قتل کے مقدمات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اسپیشل پبلک پراسیکوٹر مقرر کئے جائیں۔
ششم: میڈیا پر اور کچھ صحافیوں پر ہمیشہ سے الزامات لگتے رہے ہیں جن میں پیسہ لے کر پروگرام کرنے کا کسی کے ’’پے رول‘‘ پر ہونے کا۔ اب تو وزیر اعظم بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا بھی سیاست دانوں پر اور اہم شخصیات پر کرپشن کا الزام لگاتا رہا ہے۔ان سب کا حل کیا؟۔۔ پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتاہوں اپنے ہتک عزت کے قانون کو بہتر بنائیں، جلد فیصلے دیں پھر دیکھیں بغیر ثبوت کے کون بات کرتا ہے۔ ہفتم: پیمرا چاہےبرائے نام ہی سہی ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔ مگر چیئرمین سمیت اس کے تمام ممبران کا تقرر حکومت کرتی ہے۔۔اس قانون میں بہتری کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ کیونکہ اس میں بہت اصطلاحیں انتہائی مبہم ہیں۔ آپ کی وزارت اس میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہشتم:سوشل میڈیا ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے مگر لگام صرف حکومت مخالف کی کھینچی جاتی ہے۔۔ دوہزار چودہ کے پی ای سی اے ایکٹ کے تحت ایف آئی اے نے اب تک جو بھی کارروائیاں کی وہ زیادہ تر صحافیوں اور حکومت مخالف بلاگرز کے خلاف ہیں۔۔نہم:اگر ہوسکے تو جناب جاوید جبار صاحب اور جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد صاحب کی 349صفحات پر مشتمل میڈیا کمیشن کی رپورٹ ضرور پڑھ لیں۔ اس پر عمل ہوگیا تو 80فیصد معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔
دہم اور آخری نکتہ: دوہزار آٹھ میں پی ایف یوجے نے میڈیا کمپلینٹس کمیشن قائم کرنے کی تجویز دی تھی، بعد میں دوہزار انیس میں، میں نے ذاتی طور پر چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب کو ڈاکٹر شاہد مسعود کیس کے دوران دی تھی، آپ کہیں گے تو آپ کو بھی ارسال کردوں گا۔۔
جناب والا! ہم حکومت کو آزاد کروانا چاہتے تاکہ اس پر الزام نہ آئے مگر ہر حکومت میڈیا کو پابند رکھنا چاہتی ہے، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔( بشکریہ جنگ)۔۔