saat samandar paar dosto ke naam

شہد کے شیدائی، گنڈاپور کی زہرافشانی

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب

خیبر پختونخوا کے “شہد کے شیدائی”چیف منسٹر جناب علی امین گنڈا پور کی”زہر افشانی” کوئی حیرانی کی بات نہیں۔۔۔۔بدقسمتی سے یہ “انداز گفتگو”صرف گنڈاپور نہیں تحریک انصاف کا “مجموعی مزاج” ہے اور یہی”زبان درازی”ان کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔۔۔بہر حال گنڈا پور صاحب ” ایسی صحافت”پر لعنت بھیجتے ہیں تو ہم بھی “ایسی سیاست” پر تھوکتے ہیں۔۔۔۔صحافی کی تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے۔۔۔۔کوئی چاہے تو سیدھی راہ لے۔۔۔۔جناب عمران خان کے کمال اور زوال کے دنوں میں خاکسار نے تحریک انصاف کے اس “عارضہ زبان” کی کئی بار نشان دہی کی مگر اقتدار کے نشے میں مخمور لوگ اندھے اور بہرے ہوجاتے۔۔۔۔۔۔کچھ سجھائی دیتا ہے نہ سنائی؟؟؟زوال کے بعد ایک کالم میں لکھا کہ نوشتہ دیوار تھا کہ”عمرانی سیاست” کا یہ “شجر نفرت”ایک دن “مرجھا”جائے گا اور “برگ وبار”بکھر جائیں گے۔۔۔۔۔۔باقی زوال ایک “عبرت کہانی” ہے۔۔۔۔۔”یہ دستک” کسی کے دروازے پر بھی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔۔سوائے اللہ کے کسے خبر کہ کل کون “کس حال” میں ہوگا؟؟ ناجانے کچھ لوگ منہ”پھلا پھلا”کر”خدائی لہجے”میں کیوں بات کرتے اور پھر اوندھے منہ گرتے ہیں۔۔۔۔اوج کمال میں اعتدال سے بہکے یہ قابل رحم لوگ ہوتے ہیں کہ زوال ہمارے اپنے ہی کبر سے متشکل”شکنجہ”ہوتا ہے۔۔۔۔تاریخ کے اوراق “قصہ پارینہ” ہوئے ایسے بے شمار بدقسمت لوگوں کی عبرتناک داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔۔۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے زوال کے کئی اسباب ہیں لیکن تین وجوہات اہم ہیں۔۔۔ہمادے نزدیک لوگوں کے کپتان میں تین نقص بڑے مہلک تھے۔۔ایک احسان فراموشی دوسری زبان طرازی اور تیسری کارکنوں کی زہر آلود ذہن سازی۔۔۔یہی تین عیب ان کے لیے “داغ ندامت” بن گئے۔۔تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی اپنے خیر خواہ کا “بد خواہ” ہو اور “سیاہ رو”نہ ہو۔۔۔”تعمیر” کرنے والوں کیخلاف “تخریب” کا جذبہ” کالک” ہے۔۔۔ زمانے گواہ ہیں کہ خلوص کو” پامال”کرنے والے نحوست زدہ قدم آخر ” اپاہج” ہو جاتے ہیں۔۔۔خان صاحب کے کمال کے زمانے کسی ایک کالم میں عرض کی تھی کہ محبت ہو یا سیاست،عہد وفا کے بندھن سے ہی “یہ سفر”معتبر ٹھہرتا ہے…ہمارے نزدیک جو منحرف ہوتا ہے کم ظرف ہوتا ہے….مجھے ذاتی طور پر” ابن الوقت لوگوں” سے شدید نفرت ہے کہ چڑھتے سورج کے پجاری گھٹیا ترین لوگ ہوتے ہیں لیکن خان صاحب کے باب میں جہانگیر خان ترین اور علیم خان کی کہانی تو اس عہد میں “ایفائے عہد” کی بے مثال کہانی ہے…..انہوں نے تو “”خون دل” دے کے “رخ برگ گل “نکھارا…..عمران خان کے لیے مال لٹایا…جہاز اڑائے….”عہد وفا “کی ایسی “دل پذیر داستان” لکھی کہ” رقیب” عش عش کر اٹھے۔۔۔۔اسی کالم میں نشاندہی کی تھی کہ ملک کی سبھی سیاسی اور دینی جماعتوں میں “شخصیت پرستی” کے “مکروہ رجحان” نے کارکنوں کی ایسی “جذباتی کھیپ “کو جنم دیا جو اپنے قائدین کے الفاظ کو “حرف آخر “سمجھتی ہے…ادھر آپ ان کے”نیتائوں” سے اختلاف کی جسارت کریں ادھر یہ لوگ آپ کو “تختہ مشق” بنا دینگے…!!! بھٹو کے “جیالے”….نواز شریف کے “متوالے” اور مولانا کے “رکھوالے”اس صفحے پر ایک ہیں…بدقسمتی سے اس”ٹریک پر”تحریک انصاف کی “سپیڈ” سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ وہاں “جذباتی پن “کے برعکس” ہیجانی کیفیت “کا غلبہ ہے……کپتان کے پاس سیاسی کارکن نہیں “مداحوں” کی فوج ظفر موج ہے….”فین فالوانگ” کا یہ “لشکر جرار” سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کرکے تالیاں پیٹتا اور نعرے لگاتا ہے….سٹیڈیم میں بیٹھے یہ وہ “ضدی تماشائی”ہیں جو ہر صورت میچ جیتنا چاہتے اور شکست کی صورت گھر کے برتن توڑ دیتے ہیں….لیکن انصافی بچو!گردش ایام کب رکتی ہے۔۔۔آج نہیں تو کل پردے اٹھیں گے اور سب راز کھلیں گے۔۔۔پھر کس کس پر بہتان دھرو گے۔۔کس کس کو دشنام کہو گے۔۔

ایک اور کالم میں لکھا تھا کہ خود پسند عمران خان کو ایک ہی وقت میں کئی مغالطے درپیش ہیں۔۔۔۔۔مغالطے شدت اختیار کر جائیں تو “عارضے” بن جاتے ہیں اور یہ عارضے “عارضی” نہیں ہوتے۔۔۔۔ خان صاحب کو سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے ک ان کا فرمایا ہوا “حرف آخر” ہے۔۔۔۔اسی مغالطے میں وہ دنیا جہان کے ہر موضوع پر لب کشائی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ اپنی” شعلہ باری” کو “گل افشانی” سمجھتے ہیں۔۔۔۔وہ شیشے کے گھر بیٹھ کر پتھر مارتے اور سمجھتے ہیں کہ” کانچ” کو آنچ نہیں آئےگی۔۔۔۔خان صاحب کو ایک “سنگین مغالطہ” اور ہوا۔۔۔وہی مغالطہ جو ہمارے یاں لوگوں کو ایک خاص وقت میں ہو جایا کرتا ہے۔۔۔کبھی احسان کا بدلہ احسان ہوا کرتا تھا۔۔۔پھر احسان کے بدلے گریبان کا زمانہ آگیا۔۔۔خان صاحب بھی جہانگیر ترین اور علیم خان کے بعد اسی اسٹیبلشمنٹ کے درپے بھی ہو گئے ہیں جو انہیں بڑے لاڈ سے لائی اور وہ عرف عام میں “لاڈلے” کہلائے۔۔۔اب وہ فرماتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے نہ تھی۔۔۔خان صاحب کا مغالطہ دیکھیں کہ فوج کو سر عام برا بھلا بھی کہتے اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب میں فوج پر تنقید کرتا ہوں تو یہ تعمیری تنقید ہوتی ہے۔۔۔کیا دفاعی ادارے اور اس کے ذمہ داروں کونیوٹرل۔۔ہینڈلر۔۔۔میر جعفر۔۔میر صادق۔۔غدار سازشی۔۔۔جانور۔۔۔۔چوکیدار اور ڈرٹی ہیری کہنا تنقید ہے یا تنقیص؟؟؟بقول خان صاحب یہ “تعمیر” ہے تو “تخریب”کسے کہتے ہین۔۔۔؟؟؟۔۔۔ایک اور کالم میں لکھا تھا کہ ہمارے “سکینڈل زدہ” سیاستدان اپنی اپنی پارٹی کے لیے”ریڈ لائن”ہیں تو ریاستی اداروں کی بھی ایک “سرخ لکیر” ہے۔۔۔۔شاید تاریخ میں پہلی بار پاک فوج کے انٹیلی جنس چیف کو کسی “سیاسی موضوع” پر ذرائع ابلاغ کے سامنے آنا پڑا۔۔۔۔صرف ایک سو منٹ کی پریس کانفرنس نے عمران خان صاحب کے مہینوں پر محیط “سازشی بیانیے”کو خزاں کے پتوں کی طرح بکھیر دیا۔۔۔ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ میڈیا ٹاک میں سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں…….جنرل ندیم انجم نے یہ بھی بتایا کہ نیوٹرل،جانور،میر جعفر اور میر صادق اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا۔۔۔۔اچھا ہوتا عمران خان صاحب ایک ایک سوال کا دلیل کے ساتھ جواب دیتے مگر وہ کنٹیر پر چڑھ گئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر اداروں کو للکارنا شروع کر دیا ہے۔۔۔کوئی ان سے پوچھے کہ اپنے ملک کی فوج کے لیے نیوٹرل۔۔۔ہینڈلر۔۔۔جانور۔۔۔میر جعفر اور میر صادق ایسی توہین آمیز اصطلاحات کون سی سیاست ہے؟؟

ہر بات پر کہتے ہو کہ تو کیا ہے

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟؟

میر کارواں کے جو اوصاف علامہ اقبال نے گنوائے وہی شخصیت کو نکھارتے ییں۔۔۔نگہ بلند۔۔۔سخن دل نواز۔۔۔جاں پرسوز۔۔۔

وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا اور سوچ سوچ کر بولتا ہے کہ کتنے ہی لوگ اس کے نقش قدم پر ہوتے ہیں….قومی لیڈر کی گفتگو انتہائی” سکرپٹڈ” ہوتی ہے۔۔۔لڑی میں پروئے موتیوں کی طرح مرطوط بیانیہ۔۔۔۔گفتار میں تکرار ایک نقص ہے۔۔۔۔طوالت بھی گراں گذرتی ہے۔۔۔قائد اعظم بہت کم بولے مگر ان کا فرمایا مستند ٹھہرا اور وہ “قومی بیانیہ” بن گیا۔۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوچ کر بولنے نہیں بول کر سوچنے کا کلچر ہے…..صرف عمران خان ہی نہیں کبھی نواز شریف اور زرداری بھی یوں ہی تلخ ہوا کرتے تھے۔۔۔ غیر محتاط گفتگو نے کالج زمانے میں پڑھی اانگریزی نظم “شکاری” یاد دلا دی۔۔۔۔ایڈورڈ لوبری نے اس نظم میں افریقہ کی ایک لوک داستان کو بڑے سبق آموز پیرائے میں بیان کیا ہے کہ لایعنی گفتگو کیسے وبال جان بنتی ہے۔۔۔۔

کاگوا شیروں کا شکاری تھا

وہ نیزا لیے جنگلوں میں گھوما کرتا۔۔۔

ایک دن اسے انسانی کھوپڑی ملی

اس نے کھوپڑی سے پوچھا تو یہاں کیسے پہنچی۔۔۔۔۔

کھوپڑی نے منہ کھولا اور کہا زبان طرازی مجھے یہاں لائی۔۔۔۔۔

کاگواگھر کو دوڑا،بادشاہ کے دربار پہنچا اور بولا :میں نے جنگل میں باتیں کرتی کھوپڑی دیکھی۔۔۔۔

بادشاہ خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا: جب سے میری ماں نے مجھے جنم دیا ہے میں نے ایسی کھوپڑی بارے سنا نہ دیکھا جو بولی ہو..۔۔۔۔.

بادشاہ نے اپنے محافطوں کو بلایا اور دو سے کہا کہ اس کے ساتھ جائو اور باتیں کرنے والی کھوپڑی کو دیکھو۔۔۔۔

لیکن اگر داستان جھوٹی ہو اور کھوپڑی کچھ نہ بولے پھر کاگوا کا سر قلم ہونا چاہیے۔۔۔۔

وہ بھگی پر سوار پر جنگل پہنچے کئی دن اور راتیں ڈھونڈتے رہے مگر کچھ نہ ملا۔۔۔۔

آخرکار انہوں نے کھوپڑی دیکھی

کاگوا نے اس سے پوچھا تم ادھر کیسے پہنچی؟؟؟؟

کھوپڑی نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔

کاگوا نے منت سماجت کی لیکن کھوپڑی خاموش رہی۔۔۔۔۔

محافظوں نے کہا گھٹنوں کے بل جھکو اور اس کی گردن اڑادی۔۔۔۔

کھوپڑی نے منہ کھولا اور بولی شکاری یہاں کیسے آئے؟؟

مردہ جان نے جواب دیا زبان طرازی مجھے یہاں لائی۔۔۔۔۔

خلاصہ کلام یہ کہ گفتگو کے بھی کچھ آداب ہیں اور زبان کے لیے بھی ایک”سرخ لکیر”طے ہے۔۔۔۔لہجہ توازن کھودے تو” بیا نیے” الجھ جاتے ہیں۔۔۔۔عمران خان نے بھی مناظرے اور مجادلے کی پالیسی نہ بدلی تو ان کی سیاست “کاگوا”ہو جائے گی۔۔۔۔۔!!! سوال ہے کہ کیا لوگوں کے کپتان کی سیاست “گردن زدنی” نہیں ٹھہری؟کیوں ٹھہری؟؟کیا کہیں گے خان صاحب کے “مفتیان کرام” بیچ اس سوال کے؟؟(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں