تحریر: انصار عباسی۔۔
عدلیہ کے فیصلوں سے عمران خان اور تحریک انصاف کو بڑی سیاسی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کی پٹیشن میں کونسل کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں سپریم کورٹ نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کو ہی بحال کر دیا۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے تحریک انصاف کےتمام ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو یہ موقع دیا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں بلکہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کو بھی تحریک انصاف کو دینے کا حکم جاری کر دیا۔ یعنی سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو وہ کچھ دے دیا جو اُنہوں نے مانگا بھی نہیں تھا۔ سیاسی لحاظ سے اگر انتخابات سے پہلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی عدالت کے ایک فیصلے کے نتیجے میں تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن لڑنے سے محروم ہو گئی تھی تو گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کے اکثریتی فیصلے نے تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں بحال کر دیا۔ سیاسی طور پر اگر یہ کہا جائے کہ جسٹس منصور علی شاہ سمیت سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے دراصل قاضی فائز عیسٰی کی عدالت کے فیصلے کو ریورس کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آئینی ہے یا آئین سے بالاتر، سیاسی ہے یا قانونی اس پر بحث جاری رہے گی لیکن جو حقیقت ہے وہ یہی ہے کہ یہ فیصلہ ہی فائنل ہے، اسی پر عمل درآمد ہو گا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے دوسرے ہی روزعمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدت کیس میں بری کر دیا گیا لیکن چند ہی گھنٹوں میںاُن کی توشہ خانہ کے ایک نئے کیس میں نیب نے گرفتاری ڈال دی اور یوں وہ رہائی سے محروم رہے جس بارے میں ،میں نے 5جون کو جنگ اور دی نیوز میں خبر دے دی تھی کہ کیسے عدت کیس میں رہائی کے بعد اُنہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائیگا۔ عدت کیس میں بریت بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے بڑی کامیابی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی ان سیاسی کامیابیوں سے زمینی حقائق اور سیاسی صورتحال میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں بحالی اور مخصوص نشستوں کے حصول کے بعد حکومتی اتحاد اگرچہ دو تہائی اکثریت سے محروم ہو چکا لیکن شہباز شریف حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پرہیں اور اُن دونوں کے درمیان ایکے اور حکومت کی مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ عمران خان اور تحریک انصاف کا طرز سیاست ہے۔جب تک عمران خان فوجی قیادت کے ساتھ لڑائی میں الجھے رہیں گے، جب تک وہ پاکستان کی معیشت کو ناکام بنانے کا کھیل کھیلتے رہیں گے اُس وقت تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی دراڑ کا کوئی خطرہ نہیں۔ عمران خان بریت کے باوجود اب بھی جیل میں ہیں اور جو حالات نظر آ رہے ہیں وہ اُس وقت تک جیل میں ہی رہیں گے جب تک کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے اپنی لڑائی ختم نہیں کرتے اور معیشت کے لیے خطرہ بننے سے باز نہیں آتے۔ عدالتیں عمران خان کو ریلیف دیتی رہیں گی لیکن حکومت اور ریاست اُنہیں جیل میں رکھنے کے جواز پیدا کرتی رہیں گی۔ عمران خان کو موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ بڑے بڑے جلسے جلوس کریں، دھرنے دیں ریلیاں نکالیں۔ یہ کھیل ایسے ہی جاری رہے گا۔اس صورتحال میں شہباز شریف حکومت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ اپنی کارکردگی سے خصوصاً معاشی پرفارمنس سے۔ آئی ایم ایف کی ڈیل ہو چکی، بجٹ پاس ہو گیا، اب اگر شہباز شریف حکومت معیشت کی بہتری کیلئے بڑے فیصلے اور اُن پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر اس حکومت کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ شہباز شریف حکومت کی ناکامی کو مقتدرہ کی ناکامی بھی سمجھا جائے گا۔ یہ صورتحال، عمران خان کتنے ہی مقبول کیوں نہ ہوں ، کے لیے بھی اچھی نہیں ہو گی بلکہ ملک ایک بحران کا شکار ہو جائے گا۔ایسی صورتحال سے ملک کو بچانے کے لیے سب ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں اور ایسے مذاکرات کا راستہ نکالیں جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان اور عوام کی خوشحالی ہو۔ سیاسی جماعتوں، مقتدرہ، حکومت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔