تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
صاف کیوںنہ کہ دوں کہ بات وہ بھی نہیں کہ جو شرمیلا فاروقی نے اپنی والدہ کےاس مختصر انٹرویو کلپ کے بارے میں کی ہے جو معروف ٹی وی اینکر نادیہ خان کےحوالے سے وائرل ہوئی اور معاملہ وہ بھی نہیں ہے کہ جس کی وضاحت نادیہ خان نے کی ہے – 18 جنوری کو صبورعلی کی شادی میں بنی اور وائرل ہونے والی ویڈیو پہ انکا مؤقف یہ ہے کہ نادیہ خان نے اس تقریب میں ان کی عمر رسیدہ والدہ سے میک اپ، لباس اور زیورات سے متعلق جو سوال کیے تو دراصل کا انداز تمسخر اڑانے والا تھا، جس پہ نادیہ خان وضاحتاً کہ رہی ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ رکن سندھ اسمبلی کو اپنی والدہ کی عزت کی پرواہ کیوں نہیں اور ان کے ذہن میں یہ سوال بھی ہے کہ آخر شرمیلا کو اپنی والدہ خوبصورت کیوں نظر نہیں آتیں؟ نادیہ کی یہ وضاحت تو گویا جلتی پہ تیل چھڑکنے والی بات ہے۔۔۔
ہمارے نزدیک شرمیلا کو اصل غصہ اس ویڈیو کے ذریعےاپنی ہنرمندی کا پول کھلنے اور ‘اندر کی بات’ باہر جانے پہ ہے کہ جس میں ان کی والدہ نے یہ صاف بتادیا تھا کہ ان کا میک اپ شرمیلا نے کیا ہے ، یعنی اس خزاں رسیدہ عمر میں انہیں جوان جہان اور کٹھ پتلی سا میک اپ کرکے مذاق کا نشانہ بناڈالنے کی ذمہ دار خود انکی ‘ہنرمند’ صاحبزادی ہیں یعنی وہ زبان حال سے اپنی اس ہیئت کذائی کے لئے شرمیلا کو قصور وار بتارہی تھیں کیونکہ وہ شایدآئینہ دیکھے بغیر ہی تقریب میں چلی آئی تھیں اور انہیں دوسروں کے دیکھنے کے انداز اور نادیہ خان کے سوالات کے ‘تیور’ سے ہی تباہی کے نقصان کا اندازہ ہوسکا- انکے شرمیلا کے جھٹ نام لے دینے سے شرمیلا کا نکما پن بینقاب ہوا یا پھروہ اندازِ لاپرواہی کے جس کے تحت انہوں نے خود پہ تو خاص تؤجہ دی مگر اپنی والدہ کے لئے قطعی لاپرواہی برت کے انہیں تماشا بنادیا کیونکہ موصوفہ نے جیسے تیسے اپنی والدہ کا الٹا سیدھا اور مضحکہ خیز سا میک اپ کرکے جان چھڑالی اور اس بات کا مطلق احساس نہ کیا کہ اس بوسیدہ حالت میں بِیچا جیسا بنانے پہ انہیں کس قدر تمسخر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔۔۔۔ اور وہ بھی اس وقت کہ جب محفل میں نادیہ خان جیسی گھاگ اینکر بھی موجود ہوں کہ جنہوں نے اس نادر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھالیا ۔۔۔ ویسے انیسہ فاروقی کے ‘جغرافئے’ کا معاملہ گھمبیر بنانے میں صرف ان کے میک اپ ہی نہیں انکی نوخیز سی ِدکھتی انار کلی ٹائپ ڈریسنگ کا بھی بھرپور کردار ہے کہ جیسے آئینے کے بغیر بھی جانچا جاسکتا تھا اور کم ازکم اس دلربائی کے لئے وہ خود ہی ذمہ دار ہیں-
جہانتک بات ہے تمسخر کا نشانہ بننے کی تو ابتک تو شرمیلاکو اس کا عادی ہو جانا چاہیئے کیونکہ اس کے اس سے بڑے بلکہ بہت بڑے مواقع تو انکی زندگی میں پہلے بھی آچکے ہیں مثلاً اس وقت جب دو دہائیاں قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میڈیا کی موجودگی میں اور سب کے سامنےانکے فیملی لاکرزسے اس وقت کی ساڑھے 17 کروڑ روپے مالیت کے زیورات اور نقدی برآمد کی تھی جو آج کے حساب سے لگ بھگ ایک ارب روپے کے برابر ہے اور جس کا حساب کہیں موجود نہ تھا۔۔
یادش بخیر ، ایک موقع تو تمسخر کا تو وہ بھی تھا کہ جب انکے انٹر پاس والد عثمان فاروقی کو اسٹیل مل جیسے عظیم ٹیکنیکل پروجیکٹ کا چیئرمین لگایا تھا کہ جہاں انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے زرداری کے تابع مہمل کی حیثیت میں ادارے کو اربوں کا چونا لگادیا تھا اور ادارے کا پٹھا ایسا بٹھایا تھا کہ وہ پھر کبھی سنبھل نہ سکا بعد میں انکی یہ خصوصی صلاحیت میڈیا پہ نمایاں ہوئی تھی اور جب انہیں حراست میں لیا گیا تو انہوں نے جیل میں بیٹھ کے گریجویشن کا امتحان دیا تھا ویسے چونکہ ہر خرابی دراصل سیکھنے کا اک موقع ساتھ لاتی ہے اور چونکہ اب تک تو وہ کئی بار ایسی تمسخر آمیز صورتحال کا بہت ڈھٹائی سے سامنا کرنے کا بڑاتجربہ حاصل کرچکی ہیں چنانچہ انکے لئے عین مناسب ہے کے وہ خاموش رہ کر سینیئر سٹیزنز کی ڈریسنگ کے انداز جانیں اور ان کے میک اپ کے خصوصی امور سیکھنے پہ تؤجہ دیں ورنہ اب وہ جتنی اچھل کود اور سیاپہ کریں ، اس صورتحال کی مضحکہ خیزی اور بھی بڑھتی ہی چلی جائے گی ۔۔۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔