تحریر : حامد ولی
کچھ شخصیات ایسی طلسماتی ہوتی ہیں کہ ان سے دورکا واسطہ ہوتے ہوئے بھی وہ آپ کے دل کے اتنے قریب محسوس ہوتی ہیں کہ آپ ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔ان کے ساتھ آپ کا ”اورا” اس طرح مل جاتا ہے کہ جیسے آپ ان کو صدیوں سے جانتے ہیں ۔۔۔۔کراچی پریس کلب کے سیکرٹری شعیب احمد خان بھی ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں ۔ ہم ایسے جونیئر جب شعبہ صحافت کی تاریخ دیکھتے ہیں اور صحافیوں کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات سے متعارف ہوتے ہیں تو ہمارے سامنے گنے چنے چند نام ہی سامنے آتے ہیں ۔ہم حال سے زیادہ ماضی میں زندہ رہنے والے لوگ ہیں جن کے لیے جو ماضی کی یادگاروں پر ہی نازاں رہتے ہوئے اپنے حال سے بے خبر رہتے ہیں ۔۔۔میں اسے افسوسناک صورت حال ہی کہہ سکتا ہوں ۔۔۔ہونا تو یہ چاہیے کہ لوگوں کی خدمات اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ان کی زندگیوں میں ہی کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ یہ ہمارے وہ محسن ہیں جن کی بدولت آج معاشرے صحافی سر اٹھاکے چل سکتے ہیں ۔۔۔۔
شعیب احمد خان آج کی صحافتی تاریخ کا زندہ لیجنڈ ہے ۔۔۔۔جو صحافیوں کے حقو ق اور ان کی سہولیات کے لیے بغیر کسی ستائش کے تمنا کے اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔۔وہ اپنی خدمات کا اعتراف کسی شخص سے نہیں بلکہ خدا کی ذات سے چاہتا ہے ۔۔۔اور یقیناً حقیقی کامیاب لوگ وہی ہیں جو اپنے رب کی رضا کے لیے کام کرتے ہیں ۔۔وہ کراچی پریس کلب کا سیکرٹری بنا تو اس نے یہ ذمہ داری کسی عہدے کو انجوائے کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے صحافی بھائیوں کو کچھ لوٹانے کے لیے اٹھائی ۔۔وہ اپنے سابقین کی روایت کا امین تھا ۔۔نیت سچی ہو تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا ہے ۔ آج کراچی پریس کلب کا ہر ممبر فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ کراچی پریس کلب ان کے لیے دوسرا گھر ہے ۔۔۔۔۔صحافیوں کو یہ دوسرا آشیاں فراہم کرنے میں ایک بڑا ہاتھ شعیب احمد خان کا بھی ہے ۔۔۔۔جو آج بھی اپنی جاندار مسکراہٹ کے ساتھ اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرتے ہوئے اپنا فرض پورا کررہا ہے ۔۔۔۔
شعیب احمد خان وہ قرض بھی چکارہا ہے جو اس پر واجب بھی نہیں ہیں ۔۔۔۔وہ کراچی پریس کلب کا پہلا بلامقابلہ سیکرٹری بنا تھا جو اس کا بات کا ثبوت ہے کہ مخالفین بھی جانتے ہیں کہ اس کی موجودی کراچی پریس کلب کا وقار بڑھائے گی ۔۔۔۔وہ غیر محسوس طور پر صحافیوں کے ایک ایسا رہنما کے طور پر سامنے آیا ہے جس پر تمام مکتبہ فکر صحافی اعتماد کرسکتے ہیں ۔۔۔۔وہ سب کا بھائی ہے ۔۔۔وہ خود کو رہنما سمجھتا ہی نہیں ہے ۔۔۔۔اور یہی اس کی کامیابی کا اصل راز ہے ۔۔۔۔آج وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہے جب بھی ملک میں صحافیوں کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات کی کوئی فہرست مرتب ہوگی تو اس کا نام اس میں جلی حروف سے جگمگارہا ہوگا۔۔(حامد ولی)۔۔