تحریر: امجداسلام امجد۔۔
یوں تو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے دنیا بھر میں کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آرہی مگر ایک عجیب سا واہمہ تھا اور قدرے خودغرضانہ سا یہ احساس بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا کہ ہمارے یہاں کورونا وبا کا زور شائد اس لیے کم ہے کہ بوجوہ یہاں کے لوگوں کا فطری حفاظتی نظام جسے امیونٹی بھی کہا جاتاہے بہتر ہے اور غالباً زیادہ درجہ حرارت پر یہ وائرس بھی کم خطرناک ہوجاتاہے۔
مجھے یاد ہے اُس زمانے میں بھی مختلف طبی ماہرین بالخصوص ہمارے پیارے ادیب اور محقق دوست ڈاکٹرسیّد تقی عابدی نے بار بار متنبہ کیا تھا کہ اس وبا کے اگلے حملے کی زیادہ شدت انھی نام نہاد ’’محفوظ‘‘ علاقوں میں ہوگی ۔گزشتہ ہفتے ممبئی میں برادرم گلزار سے ایک طویل ٹیلی فونک گفتگو کے دوران انھوں نے بھی تقی بھائی کی اس وارننگ کا ذکر کیا جس کے ضمن میں برتی جانے والی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آج پورا بھارت ایک اسپتال کی سی شکل اختیار کر گیا ہے۔انھی تقی بھائی کے بیان کے مطابق پاکستان میں بھی 15اپریل سے 25مئی تک کا زمانہ انتہائی خطرناک ہے کہ اگر اس کے دوران انتہای سخت احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو خدا نخواستہ سرحد کے اس طرف بھی اُس طرف کے منظر کاایکشن ری پلے ہوسکتا ہے اور بلاشبہ یہ موقع ایسا ہے کہ ہمیں تمام تر تاریخی اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے کو صرف بطور انسان دیکھنا ہوگا اور سب کی خیر اور سلامتی کے لیے یکساں دعائیں اور کوششیں کرنا ہوں گی۔
تین چار روز قبل جب عزیزی کنور رنجیت سنگھ چوہان نے فیس بُک پر یہ پوسٹ لگائی کہ اُردو دنیا کے ایک بہت اہم نمایندے ڈاکٹر شمیم حنفی بھی کورونا کا شکار ہوگئے ہیں اور اُن کی بگڑتی ہوئی حالت کے باوجود اُن کے لیے آکسیجن اور وینٹی لیٹر کا مناسب انتظام نہیں ہورہا تو اگرچہ اُس کے چندگھنٹے بعد ہی انھوں نے یہ اطلاع بھی دے دی کہ نہ صرف متعلقہ سہولیات کا انتظام ہوگیا ہے بلکہ شمیم بھائی اب زوبصحت بھی ہیں، پتہ نہیں یہ میری چھٹی ساتویں یا کسی اور حِس کا عذاب ہے کہ اکثر مجھے احساس ہوجاتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔
سو وہی ہوا، اطلاعات کے مطابق طبعیت بہتر ہونے پر وہ انھیں گھر لے آئے مگر انھیں پھر اسپتال شفٹ کرنا پڑا جہاں وہ صرف چند گھنٹے ہی جی سکے۔ ڈاکٹرشمیم حنفی ایک بہتر ین مدرّس اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ تنقید اور تحقیق کے شعبوں میں بھی خصوصی دسترس رکھتے تھے اوراُن کا نام بھارت میں گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ لیا جاتا تھا ، اسی نسبت سے انھیں مجلس فروغِ اُردو ادب دوحہ قطر کے ایوارڈ کا حق دار بھی قرار دیا گیا تھا جسے ’’دیر آئد درست آئد‘‘ کا درجہ دیا جاسکتا ہے ۔
شمیم حنفی سے پہلی ملاقات راجندر سنگھ ملہوترہ کے شام بہار ٹرسٹ مشاعرے کی وساطت سے دلی میں قیام کے دوران ہوئی اور گزشتہ چار دہائیوں میں نہ صرف اس رشتے کو مزید تقویت ملتی رہی بلکہ اُن کی نئی سے نئی خوبیاں اور ادبی کارنامے بھی تسلسل سے دلوں میں اُن کی عزت بڑھانے کا باعث بنتے رہے، وہ دیگر بھارتی قلم کاروں کی نسبت کئی بار پاکستان آئے اور مختلف مجالس میں اُن کو سننے کا موقع بھی ملتا رہا، میرے نزدیک اُن کے علم و فضل اور مطالعے سے بھی زیادہ جو دو باتیں بہت اہم اور متاثر کن تھیں، وہ اُن کی یادداشت اور کسی بھی موضوع پر فی البدیہہ عالمانہ خطاب کی غیر معمولی صلاحیت تھی کہ اُن کی ارتجالاً کی جانے والی گفتگو بھی اکثر ہم عصروں کے بہت محنت سے لکھے ہوئے مقالوں سے زیادہ دلچسپ اور پُرمغز ہوتی تھی۔ اُن کے اکثر کلیدی خطبوں میں بھی یہ دونوں باتیں کچھ ایسے رنگوں کا اضافہ کر دیتی تھیں کہ خشک سے خشک موضوعات بھی اُن کی زبان سے اچھے لگنے لگتے تھے۔
مجھے اُن کے ساتھ سفر کرنے کا موقع بھی ملا ہے اور ریختہ کی پہلی کانفرنس کے دوران انھوں نے میرے بارے میں جو گفتگو فرمائی تھی وہ اس اعتبار سے بہت حیران کن تھی کہ بظاہر وہ اپنے آپ اور کتابوں میں مگن رہنے والے ایک حالِ مست قسم کے انسان لگتے تھے لیکن جب وہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تاثرات کا ذکر کرتے تو یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں دیکھی اورکانوں سُنی ہوئی بہت سی باتیں ، انکشافات کا رُوپ دھار لیں۔ وہ مذہب اور سیاست سمیت ہر معاملے میں بہت وسیع الخیال اور قدرے سیکولرمزاج کے حامل تھے جس کا اثر اُن کی تنقید پر بھی غالب نظر آتا ہے ۔ ایک گفتگو کے د وران انھوں نے مشہور ماہر فلکیات کارل سیگن اور اُس کے کائنات کے بارے میں نظریات کا ذکر جس آسانی ، سہولت اور اختصار آمیز تفصیلات کے ساتھ کیا اس کا خوشگوار تاثر آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے ۔
سنبل شاہد اپنے والد ، بہنوں اور ٹی وی پروگراموں کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام تھی لیکن میرے لیے وہ ایک عزیز دوست، بہن اور بھابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زندگی سے بھرپور ایسا وجود تھی جس کی موجودگی میں آپ کو خوامخواہ زندگی کا مثبت قدروں پر ایمان آنے لگتا ہے کہ وہ جس بے ساختگی اور جس مہارت سے ہنستی اور بات کرتی تھی کہ جس خوب صورتی سے گانے کے مختلف انداز کی ماہرانہ پیروڈی کرتی تھی اُس کا لطف اُس کے قریبی دوست ہی بیان کرسکتے ہیں کہ اس کے لیے اُسے کسی فرمائش یا تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ نیلم احمد بشیر ، بشریٰ اور اسما سے تو میری پہلی ملاقات اُن کے والد احمد بشیر مرحوم کے تعلق سے ہوئی لیکن سنبل کا ابتدائی حوالہ اس کے شوہر شاہد بنے جن کے ساتھ ستر کی دہائی میں فین روڈ پر واقع ایک سیمنٹ کی کرکٹ پچ پر پنجاب کلب کی معرفت دوستی ہوئی۔
برادرم سلیمان غنی بھی جو اسی نواح میں رہتے تھے اور بعدمیں فیڈرل سیکریٹری ہوئے اس زمانے میں ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ سب اپنی اپنی زندگی کی دوڑ میں مصروف ہوگئے اور مجھے بہت دیر میں پتہ چلا کہ یہ لمبی سی ہنسنے اور ہنسانے والی لڑکی ہمارے اُسی دوست شاہد کی بیوی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب اُن کا جوان بیٹا ایک حادثے میں فوت ہوا تو باوجود بہت کوشش کے میں ان دونوں دوستوں سے تعزیت نہ کرسکا کہ مجھ میں اس کی ہمت ہی نہیں تھی۔ دو بار میں نے اور میری بیوی فردوس نے نیلم احمد بشیر کے ساتھ اس کے لیے وقت بھی طے کیا مگر ہماری سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ اُسے کیا اور کیسے تسلی دیں گے۔
دل میں یہی تھا کہ کچھ وقت گزرے پھر اُس سے ملیں گے لیکن وہ وقت اگر کہیں تھا بھی تو ہماری ہچکچاہٹ کی وجہ سے اس طرح گم ہوگیا ہے کہ اب خود اس کی تعزیت کے لیے شاہد اور اس کی بہنوں سے ملنا ایک نئے سوال کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ربِ کریم اس کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے کہ اب ہم پیچھے رہ جانے والی اس دعا کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔