تحریر: حامد میر۔۔
یہ ماضی کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں آپ کو آج کے پاکستان کے سب رنگ ملیں گے ۔یہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا دور تھا ۔ اسلام آباد میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای ) کا سالانہ اجلاس تھا جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق تھے۔صدر صاحب کی طویل تقریر کے بعد ڈنر تھا لیکن ڈنر سے قبل سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل انور خلیل نے پاکستان بھر سے آئے ہوئے ایڈیٹرز کا صدر سے تعارف کرایا ۔جب وہ میر خلیل الرحمٰن صاحب کے پاس پہنچے تو تعارف کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ صدر صاحب انہیں پہلے سے جانتے تھے ۔ان سے مل کر صدر صاحب آگے بڑھے تو انور خلیل نے تعارف کرایا ’’یہ ہیں شکیل عادل زادہ، سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر اور مالک‘‘۔
صدر صاحب مسکرائے اور آگے بڑھ گئے لیکن پھر یک دم انہیں کچھ یاد آیا اور پلٹ کر انور خلیل سے پوچھا کہاں ہیں سب رنگ کے مدیر؟ سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل نے میر خلیل الرحمٰن کے پہلو میں کھڑے شکیل عادل زادہ کی طرف اشارہ کیا تو جنرل ضیاءالحق نے بہت غور سے انہیں دیکھا۔سرہلا کر ایک لمبا سا ’’ہوں‘‘ کہا اور پھر مسکراتے ہوئے ایک بھرپور مصافحہ کیا جس پر دائیں بائیں کھڑے کئی مدیران حیران رہ گئے ۔جنرل ضیاء الحق نے شکیل عادل زادہ سے کہا ’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی ‘‘۔جب صدر صاحب آگے بڑھ گئے تو میر خلیل الرحمٰن نے ستائشی انداز میں شکیل عادل زادہ سے کہا واہ شکیل میاں ! آپ تو چھپے رستم نکلے۔فوجی صدر کے پلٹنے اور دوبارہ مصافحہ کرنے پر کسی نے سمجھا کہ صدر صاحب بھی سب رنگ ڈائجسٹ کے قاری ہیں، کسی کا خیال تھا کہ صدر صاحب نہیں بلکہ ان کی بیگم صاحبہ غلام روحیں، امربیل اور بازی گر جیسی سلسلے وار کہانیوں کی اسیر ہونگی اور خود شکیل عادل زادہ بھی حیران تھے۔
صدر صاحب کی توجہ اور مسکراہٹ سے ’’بازی گر‘‘ کے خالق کو یہ احساس ہوا کہ حکمران وقت اگر ان کا گرویدہ نہیں تو کم از کم ان کے بارے میں نیک جذبات ضرور رکھتا ہے ۔اگر جنرل ضیاءالحق کو پتہ ہوتا کہ امرتا پریتم، گلزار، قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، ابن انشاء، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد سے لیکر نصیر ترابی تک برصغیر پاک وہند کے درجنوں ادیب اور شاعر شکیل عادل زادہ کے گرویدہ ہیں تو وہ انہیں گلے بھی لگاتے لیکن اگلی ہی شام شکیل عادل زادہ آرمی ہائوس راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق کے سامنے بیٹھے تھے ۔ہوا یوں کہ شکیل عادل زادہ نے کافی عرصہ سے خواتین کے ایک پرچے کیلئے ڈکلیئریشن کی درخواست دے رکھی تھی لیکن انہیں ڈکلیئریشن نہیں مل رہا تھا ۔جس رات جنرل ضیاء الحق نے پلٹ کر ان کے ساتھ مصافحہ کیا اسی رات انہیں پتہ چلا کہ کل انور خلیل نے دوپہر میں صدر کو ملنا ہے ۔انہوں نے انور خلیل سے کہا کہ آپ صدر صاحب سے ملنے جائیں تو براہ کرم میرے ڈکلیئریشن کی بات بھی کر دیجئے گا۔
انور صاحب دوستوں کے کام آنے والے شخص تھے۔اگلے دن صدر سے ملاقات کے دوران انہوں نے شکیل عادل زادہ کے ڈکلیئریشن کی بات کی تو صدر صاحب نے کہا وہ شکیل عادل زادہ صاحب سے خود ملنا چاہتے ہیں آپ انہیں آج شام میرے پاس بھیج دیجئے۔انور صاحب نے شکیل عادل زادہ کو اطلاع دی کہ آج شام چھ بجے آپ کی صدر سے ملاقات ہے ۔شکیل عادل زادہ نے فوراً اپنی شیروانی استری کرائی، ایک دوست حسین ہاشمی سے گاڑی لی، مارکیٹ سے سب رنگ کا تازہ شمارہ خریدا اور ٹھیک چھ بجے صدر صاحب کے پاس پہنچ گئے ۔صدیق سالک انہیں لیکر جنرل ضیاء الحق کے پاس پہنچے تو حکمران وقت شکیل عادل زادہ سے بغل گیر ہوگئے اور رسمی جملوں کے بعد کہا کہ مجھے پتہ چلا کہ آپ کا کوئی مسئلہ وزارت اطلاعات میں اٹکا ہوا ہے ۔
شکیل صاحب نے بتایا کہ میں خواتین کا ایک معیاری پرچہ نکالنا چاہتا ہوں لیکن ڈکلیئریشن نہیں مل رہا ۔جنرل ضیاء نے کہا میں پوچھوں گا کہ آپ کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہو رہا یہ بتائیے سب رنگ کی مقبولیت کا راز کیا ہے ؟سنا ہے آپ کی بہت سرکولیشن ہے ۔شکیل صاحب نے انکساری کے ساتھ بتایا کہ ہم معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور محنت کا صلہ اللہ نے دیا ہے۔ اب جنرل ضیاء کچھ سنجیدہ ہو گئے اور کہا میں نے آپ کو اس لئے زحمت دی ہے کہ کچھ اسلام کی خدمت بھی کیجئے۔
شکیل عادل زادہ چاہتے تو بتا سکتے تھے کہ جناب میں خود حافظ قرآن ہوں اور میری دستار بندی مراد آباد میں مولانا حسین احمد مدنی نے کی تھی، میرے والد عادل ادیب نے مراد آباد میں ایک مسافر خانہ اور اس کےساتھ مسجد تعمیر کرائی تھی اور وہ خود ’’مسافر‘‘ کے نام سے ایک جریدہ نکالتے تھے جس کے مدیر رئیس امروہوی ہوا کرتے تھے اور میں ایک خاندانی صحافی ہوں جس نے انتھک محنت اور جدوجہد سے پہلے عالمی ڈائجسٹ کھڑا کیا اور پھر سب رنگ کو کامیاب کیا لیکن انہوں نے خود ستائشی کی بجائے جنرل ضیاءسے عرض کیا کہ جناب یہ ایک افسانوی پرچہ ہے لیکن ہم بزرگان دین اور اولیاء کی سوانح شائع کرتے ہیں جنرل ضیاء نے پہلو بدلا اور کچھ بدلے بدلے لہجے میں کہا کہ صرف تصوف نہیں شریعت پر بھی کچھ شائع کریں ۔
شکیل عادل زادہ نے کچھ دکھانے کیلئے صدر صاحب کو سب رنگ کاتازہ شمارہ پیش کیا تو انہوں نے جملہ کسا۔’’کیا ٹائٹل پر عورت کی تصویر شائع کرنا لازمی ہے ؟‘‘ پھر ہنس کر کہا آپ پھولوں کی تصویر بھی تو شائع کرسکتے ہیں ۔صدر صاحب نے کچھ سیاست پر بات کی اور ملاقات خوشگوار ماحول میں ختم ہو گئی۔
دوسرے ہی دن شکیل عادل زادہ کو خبر ملی کہ حکومت نےسب رنگ ڈائجسٹ کا کاغذ اور اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔شکیل صاحب کے کانوں میں جنرل ضیاء کا یہ جملہ بار بار گونج رہا تھا ۔’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی‘‘پتہ چلا صدارتی حکم پر کاغذ بند کیا گیا اور اگلے پانچ سال تک سب رنگ ان پابندیوں کا شکار رہا ۔جنرل ضیاء اور ان کی آمریت ماضی کا قصہ بن چکے ہیں لیکن ان کا کردار اور انداز حکمرانی آج کے جمہوری دور میں بھی زندہ ہے ۔مجبور اور بے بس صحافت پر کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی پابندیاں لگاتا رہتا ہے ۔
فرق اتنا ہے کہ ضیاء دور اور مشرف دور میں صحافیوں کو پتہ ہوتا تھا کہ ان پر مصیبتیں نازل کرنے والا وہی ہے جس نے کہا تھا ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ‘‘ لیکن آج کے جمہوری دور میں پابندیاں لگانے والے، صحافیوں کو پولیس کی وردی میں اغواکرنے والے اور احسان اللہ احسان سے دھمکیاں دلوانے والے خود سامنے نہیں آتے شاید اسی لئے آج کی جمہوریت صحافت کیلئے جنرل ضیاء کی آمریت سے زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔