تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ہمارے وزیراعظم نے بیرون ملک دورے کے دوران ایک عوامی اجتماع میں شاعری کرنے والے ایک صاحب کو شعر کہنے سے روکتے ہوئے کہا۔۔ شعروشاعری بعد میں کریں گے ابھی بزنس کی باتیں کریں۔۔ کپتان کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوا، دل جلوں اور پٹواریوں نے تو کپتان کے خوب لتے لئے۔۔ لیکن ہمارے خیال میں ملک کو ایک پریکٹیکل وزیراعظم کی ضرورت ہے، جو خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے باہر آکر اپنی قوم، اپنے ملک کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ عوام کو ذہنی سکون میسر آسکے۔۔ کپتان چونکہ ہمارے ہم نام ہی ہیں اس لئے کپتان کی یہ عادت ہمارے اندر بھی بدرجہ اتم موجود ہے، ہمیں بھی شعروشاعری سے کوئی شغف نہیں۔ ہمارے سامنے اگر کوئی شعر سنانے لگے تو ہمیں سیکنڈوں میں نیند آنی شروع ہوجاتی ہے۔ نیند سے پہلے آنے والی جمائیاں اس بات کا سگنل ہوتی ہیں کہ شاعری سے دور رہو ورنہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاؤ گے۔۔آج ہم شاعری تو نہیں کریں گے لیکن شاعروں کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں تاکہ آپ لوگوں کی آج کی چھٹی خوشگوار گزرے۔۔
ایک شاعر کو اپنی شاعری پر بہت ناز تھا ایک دن وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ دیکھنا میں اپنی شاعری سے دنیا بھر میں آگ لگا دونگا۔۔بیوی نے جل کرکہا۔۔گھرمیں ماچس نہیں ہے، ذرا ایک شعر چولہے میں بھی ڈالنا۔۔ایک شاعر کو کسی جرم میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ عدالت میں مقدمہ چلا۔ تو جج نے پوچھا۔آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟شاعر نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔ جی بس،اپنی تازہ غزل سنانا پسند کروں گا۔۔لڑکپن کے دو دوست، طویل عرصے کے بعد ملے تو ایک دوسرے کا احوال پوچھنے لگے۔ صحت اور کاروبار کی باتیں ختم ہوئی۔ تو آخر میں ایک نے پوچھا۔ بھائی تمہارے کتنے لڑکے ہیں۔دوسرے نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ دو تھے۔۔پہلے نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، کیا مطلب،دو تھے؟دوسرے نے اداس لہجے میں کہا۔۔ ایک شاعر ہوگیا ہے۔۔ایک شاعر کی شادی ہوئی تو دلہن نے پہلے ہی روز کہہ دیا۔ مجھے کھانا پکانا نہیں آتا۔۔شاعر مسکراکرکہنے لگا۔۔فکرنہ کروبیگم، یہاں کھانا پکانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔۔ایک شخص نے مکان کرائے پر لینا تھا۔ مالک مکان نے کہا تمہارے پاس کوئی شور کرنے والی چیز جیسے ٹیپ، ٹی وی، بچے وغیرہ تو نہیں؟؟وہ بیچارا شاعر تھا، اس نے کہا۔۔ جب میں لکھتا ہوں تو رات کی خاموشی میں میرے قلم کے کاغذ پر چلنے سے ہلکی ہلکی سی آواز آتی ہے۔مالک مکان نے کہا۔۔بس پھر وہ قلم چھوڑ کر آنا ہے تو آ جاؤ۔۔کسی شاعر کا تخلص ”زخمی“ تھا، وہ کسی کام سے اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔۔ دستک کے جواب میں اندر سے کسی نے پوچھا۔۔ کون ہے؟؟ شاعر نے لہک کر کہا۔۔جی زخمی۔۔ اندر سے برجستہ جواب آیا۔۔ اسپتال اگلی گلی میں۔۔ایک شاعر کو ہر بات میں یہ کہنے کی عادت تھی، نمونہ پیش کیا ہے۔ ایک روز وہ بازار میں جارہے تھے، کسی صاحب سے ٹکراگئے۔ وہ صاحب جل کر بولے۔۔”یہ کیا بدتمیزی ہے۔“شاعر نے حسب عادت کہا۔۔نمونہ پیش کیا ہے۔۔ انگلش کے لیکچرر نے طالب علموں کو بتایا۔ انگریزی کا نہایت ممتاز اور مشہور شاعر ملٹن نابینا تھا۔دوسرے روز لیکچرر صاحب نے جاننا چاہا کہ ان کے اسٹوڈنٹس نے یہ بات یاد رکھی تھی یا نہیں؟ چنانچہ انہوں نے پوچھا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ملٹن کی شخصیت میں کیا نقص تھا؟ ہماری طرح کاایک ”ذہین و فطین“ شاگرد جلدی سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔۔ یہی کہ وہ شاعر تھا۔۔
مشاعرے میں ایک شاعر صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے ِشاعر صاحب کافی عمررسیدہ تھے اس لئے دانتوں کی بتیسی نقلی لگی ہوئی تھی۔۔شاعر صاحب نے کہا۔۔ایک شعر سنئے صاحب۔۔یہ کہتے ہوئے شاعر صاحب کی بتیسی زمین پر گر گئی۔۔ ِشاعرصاحب نے بتیسی کوزمین سے اٹھا کر کر منہ میں فٹ کیا ِپھر دوبارہ کہا۔۔ایک شعر سنئے صاحب۔۔ یہ کہتے ہوئے شاعر صاحب کی بتیسی دوبارہ گر گئی۔۔شاعر صاحب نے بتیسی کو اٹھا کر دوبارہ منہ میں فٹ کیا اورتیسری مرتبہ دوبارہ کہا۔۔ایک شعر سنیئے صاحب!۔۔اورشومئی قسمت اس بار بھی بتیسی دوبارہ زمین پر گر گئی ِپریشان ہو کے مجمع میں سے ایک صاحب نے کھڑے ہو کرکہا ِ۔۔شاعر صاحب کچھ سناؤ گے بھی یا بار بار کیسٹ ہی بدلتے رہو گے ِ۔۔ایک نوجوان اور ابھرتا ہوا شاعر جب پہلی بار عینک لگا کر آیا تو بوڑھے شاعر نے کہا۔۔عینک لگا کر تم بالکل بجو لگتے ہو۔۔نوجوان شاعر برجستہ بولا۔۔عینک اتار دوں تو پھر آپ مجھ کو بجو لگتے ہیں۔۔ایک فلمی شاعر نے اپنی بیوی سے کہا۔ میری اگلی نظم کا عنوان ہوگا۔آگ،پانی اور دھواں۔۔ بیگم کو شاعری سے سخت چڑ تھی۔ وہ غصے سے بولی۔ ایک لفظ میں کیوں نہیں کہتے۔”حقہ“۔۔پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک مشاعر ہو رہا تھا۔ایک شاعر کو اپنا کلام پیش کرنے کے لئے اسٹیج پر بلایا گیا۔شاعر نے اپنا کلام شروع کیا۔۔ اندھیرا ہو رہا ہے کسی کِرن کو جگا دو۔۔ یہ سنتے ہی مجمع میں موجود ایک دیہاتی کھڑاہوا اور غصے سے کہنے لگا۔۔ تم ہوتے کون ہو کسی کی ”رن“ کو جگانے والے۔۔ واضح رہے کہ پنجابی زبان میں ”رن“ بیوی کو کہتے ہیں۔۔کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ کر سنا رہے تھے۔ اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے خاموش تھے، لیکن جوش ملیح آبادی پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر داد و تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔ گوپی ناتھ احسن نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا۔۔قبلہ! یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟۔۔جوش صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا۔۔منافقت۔۔
ایک دفعہ ایک شخص نے مرزا غالب کے سامنے شراب کی برائیاں بیان کیں اور کہا کہ شرابی کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب بولے۔۔بھائی جس کو شراب میسر ہے اس کو اور کیا چاہیے جس کے لیے دعا مانگے۔۔جوش ملیح آبادی کی کسی نظم پر ایک سکھ نے داد دی کہ۔۔دیکھو پٹھان ہو کر کتنی عمدہ شاعری کر رہا ہے۔ جوش صاحب بولے۔۔دیکھوسکھ ہو کر کتنی عمدہ داد دے رہا ہے۔۔ایک دفع جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا ”میں ناکام شاعر ہوں“۔ اس پر مشفق خواجہ نے مشورہ دیا۔۔جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں۔۔نامور شاعر منیر نیازی صاحب شادی کے بعد کراچی آئے تو”جون ایلیا“ سے ملاقات ہو گئی۔ جون ایلیا نے کہا۔۔منیر خان تمہارے تو آدھے بال سفید ہو گئے ہیں۔۔منیر نیازی کہنے لگے۔۔شادی کے بعد جو مجھ پہ گزری اگر تم پر گزرتی تو تمہارا تو خون بھی سفید ہو جاتا۔۔۔اسرارالحق مجاز نے عالمِ مد ہوشی میں ایک صاحبِ ذوق خاتون سے کہا، ”میں ڈکشن کا ماسٹر ہوں“۔۔خاتون نے دل لگی کی خاطر سوال کیا کہ ”پھر جوش ملیح آبادی کیا ہیں؟“ تو مجاز بولے ”وہ ڈکشنری کے ماسٹر ہیں“۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستانی کرنسی صرف ٹاس کے وقت ہی اوپر جاتے دیکھی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔