تحریر: علی حسن۔۔
اکلوتے بیٹے کے قتل کے بعد والدین نے فیصلہ کیا تھا کہ قاتلوں کے ساتھ قصاص اور د ئیت کا معاملہ کر لیا جائے ۔ اطلاعات کے مطابق 53 کڑوڑ روپے وصول کر کے ماں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک چلی گئیں۔ کہا گیا تھا کہ انہوں نے اسٹریلیا میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ بیٹے کے قتل کے کچھ عرصے بعد والد جو پولس میں ملازم تھے، دل کا دورہ پڑنے کے بعد جان بحق ہو گئے تھے ۔ د ئیت کا معاملہ کرنے پر سوشل میڈیا پر ایک حلقے نے ماں اور والد کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں انصاف کی راہ میں خار ہی خار ہوں وہاں دو بیٹیوں کی ماں کو کیا کرنا چاہئے تھا۔ ایسی ماں جس کا جوان سال اکلوتا بیٹا سڑک پر قتل کر دیا گیاہو۔ عام رائے یہ ہے کہ انہیں کیوں نہیں خون بہا لے لینا چاہئے تھا۔ 2012 میں ہونے والے شاہ زیب کے قتل کے مقدمہ میں اونچ نیچ آئی۔ سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار نے اس قتل کا از خود نوٹس لیتے ہوئے رہائی حاصل کر جانے والے شاہ رخ جتوئی کو دوبارہ گرفتار کرایا تھا۔ انہیں پاکستانی پولس نے دبئی سے جا کر گرفتار کیا تھا اور پاکستان واپس لائے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کا موقف یہ تھا کہ اپنی دولت کی بنیاد پر خون بہا دے کر قتل معاف کرانے کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے بعد ایک اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو باقاعدہ جیل کا دورہ کیا اور شاہ رخ جتوئی کو عام قیدیوں کی بیرک کی بجائے ڈیٹھ سیل میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔ بہر حال سپریم کورٹ نے منگل کے روز (18 اکتوبر) شاہ رخ جتوئی اور ساتھیوں کے خلاف قتل کے مقدمہ میں انہیں بری کردیا اور جیل سے رہائی کا حکم دے دیا۔ شاہ زیب قتل کیس ، سپریم کورٹ آف پاکستان ((جسٹس اعجاز الحسن ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظہر علی اکبر پر مشتمل بنچ) کی جانب سے شاہ رخ جتوئی کی بریت کے خلاف اٹارنی جنرل پاکستان ( اشتر اوصاف علی ) کے دفتر نے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب معروف وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو فساد فی الارض روکنے کے لیے شاہ رخ جتوئی کی سزا کو قائم رکھنا چاہیے تھا۔
ایک سابق ایس ایس پی نیاز کھوسو جو شاہ رخ جتوئی کیس کی اندرونی کہانی اور اصل حقائق سے اس لئے واقفیت رکھتے ہیں کہ وہ دبئی سے اس کی گرفتاری اور تحقیقات میں شامل رہے تھے ۔ ان کے تحریر کردہ اس مضمون میں بنیادی معلومات ہیں جو اب تک کہیں بھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھے گئے ایک طویل مضمون میں کہا ہے کہ ” پتا نہیں ، کیا یہ مکافات عمل ہے یا کچھ اور۔۔۔ایک وقت تھا جب شا ہ رخ جتوئی کے والد (سکندر جتوئی )نے صدر پرویز مشرف سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ڈوگر صاحب کو لگوایا تھا اور آج یہ وقت ہے کہ دنیا کو خریدنے کا دعوی کرنے والوں اور دنیا کے مالک کے مابین ایک معاملہ ہے ۔ واقعات پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم کس قدر غیر محفوظ معاشرے میں جی رہے ہیں یہ کیس ہسٹری پڑھ کر عوام جو بھی رائے قائم کرے اس سے اصل حقائق تبدیل نہیں ہونگے۔شاہ زیب قتل کیس کی ہسٹری پولیس اور عدلیہ کے لیئے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے جو تاریخ کا حصہ رہے گا۔ اور میرا عوام کو مشورہ ہے کہ اگر ا ±ن پر پرچہ ہوجائے تو وہ اپنی کار اور بیوی کے زیور بیچ کر بھی تھانے سے ہی کیس ختم کروانے کی کوشش کریں۔
” میں ریڈ وارنٹ کی ضروریات پوری کرنے کے بعد دبئی روانہ ہوگیا، اور دبئی پہنچتے ہی جاوید ریاض صاحب سے ملا، جاوید ریاض صاحب مجھے دبئی میں پاکستان سفارت خانے لے گئے اور وہاں ہم نے اس وقت کے پاکستانی سفیر جمیل احمد خان سے ملے ( سابقہ ڈی،آئی، جی) ا ±ن سے بھی میری پرانی ش ±ناسائی تھی جب وہ کراچی میں ایس ایس پی سینٹرل تھے اور میں سی آئی اے سول لائین کراچی میں تھا، ا ±ن کو ہم نے شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری اور پاکستان منتقلی کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنی کی درخواست کی۔دوسرے دن ہم دبئی کے سی،آئی، ڈی کے دفتر گئے وہاں پاکستان کی کے انٹرپول پولیس کے نمائندے کی حیثیت سے جاوید ریاض صاحب نے شاہ ر ±خ جتوئی کی باضابط تلاش، گرفتاری اور پاکستان منتقلی کی درخواست دے دی اور ہم نے متعلقہ افسر کو ساری معلومات جو میں کراچی سے لایا تھا جیساکہ شاہ رخ جتوئی کا پاسپورٹ نمبر، سابقہ ٹریول ہسٹری اور شاہ زیب قتل کیس کا رکارڈ اور شواہد وغیرہ دیئے، سی آئی ڈی افسر نے کہا اب آپ کا کام ختم ہوا جب بھی آپ دفتر آنا چاہتے ہیں بھلے آئیں ورنہ ہم جو بھی پیشرفت ہوگی جاوید ریاض صاحب کو فون پر مطلع کرتے رہیں گے۔تیسرے دن سی آئی ڈی افسر نے فون پر جاوید ریاض صاحب کو مطلع کر دیا کہ شاہ رخ جتوئی کو ہم نے گرفتار کر لیا ہے اور کچھ دن ہم ملزم سے کیس کے متعلق پوچھ گچھ کریں گے اور بعد میں عدالت میں پیش کریں گے، اگر عدالت نے اجازت دی تو ہم آپ کو ملزم حوالے کردیں گے۔
” آٹھویں دن سی آئی ڈی والوں نے جاوید ریاض صاحب کو فون کیا کہ آپ لوگ سی آئی ڈی دفتر آ جائیں۔ سی آئی ڈی افسر نے بتایا کہ عدالت نے اجازت دے دی ہے اور ہمیں شاہ رخ جتوئی کا پاسپورٹ اور ٹکٹ دے دیا اور کہا کہ آپ کراچی کی سیٹ کنفرم کرا کر ہمیں فون پر اطلاع کردیں ہم ملزم کو ا ±س فلائٹ میں ایئرپورٹ لے آئیں گے۔ ( ہمارے م ±لک میں کیا اس طرح آسانی سے یہ مم ±کن تھا ؟ ہم تو پہلی فرصت میں ملزم سے ڈیل کی بات کرتے !!!!!! )جاوید ریاض صاحب نے ا ±سی دن شام والی فلائیٹ میں ہماری سیٹیں کنفرم کرا دیں، جاوید ریاض صاحب مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے چلے۔ وہاں سی آئی ڈی افسر نے کچھ کاغذات پر جاوید ریاض صاحب کے دستخط لیئے اور کچھ پر میرے دستخط لیئے اور جہاز میں شا ہ رخ جتوئی میرے حوالے کردیا۔ ( مجھے حیرانگی ہو رہی تھی دبئی سی آئی ڈی پولیس یہ سب کچھ خاموشی اور آٹو پر کر رہے تھے ہم سے زبانی ہم کلام بھی نہیں ہو رہے تھے ) جہاز میں نے شا ہ رخ سے پوچھا کہ قتل کس طرح ہو گیا ؟ شا ہ رخ جتوئی کی بتائی ہوئی ساری تفصیل نیچے لکھ رہا ہوں۔ کراچی پہنچتے ہی ایئرپورٹ پر شا ہ رخ جتوئی کو تفتیشی افسر انسپیکٹر مبین کے حوالے کر دیا ۔
” اصل واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ شاہ زیب اپنی بہن دلہن کو بیوٹی پالر سے لیکر پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی اور دلہن کار سے اتری کار کے سامنے تالپورں کا نوکر لاشاری (غلام مرتضی) کار کے سامنے کھڑا تھا اور ایک ٹک دلہن کو گھور رہا تھا یہ بات شاہ زیب کو بری لگی اور کار لاک کرتے ہی لاشاری کے پاس چلا گیا اور ا ±س کو کہا کہ میری بہن کو کیوں گھور رہے ہو ؟ اور لاشاری پر تھپڑوں کی بارش کردی ساتھ میں ہی شادی تھی ، شاہ زیب کے اور دوست اور رشتہ دار بھی جمع ہوگئے اور انھوں نے بھی لاشاری کی خبر لینا شروع کردی، ساتھ میں عام راستہ تھا، مجمع جمع ہو گیا اور ٹریفک ر ±ک گیا اور لاشاری مار کھاتے ہوئے وہاں سے گذرنے والے شاہ رخ جتوئی کی نئی کار کے بانٹ پر گر گیا۔ شاہ رخ جتوئی اپنی کار کے نقصان کی وجہ سے کار سے ا ±ترا اور شاہ زیب والوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ شاہ زیب والوں نے لاشاری کو چھوڑ کر شاہ رخ کو مارنا شروع کردیا قریب شادی میں شاہ زیب کے والد ڈی ایس پی صاحب یہ سارا تماشہ دیکھ رہے تھے وہ درمیان میں آگئے اور شاہ رخ کو مجمع سے چھڑا کر کار میں سوار کرا دیا اور شاہ رخ سے پوچھا کہ کس کے بیٹے ہو شاہ رخ نے بتایا کہ میں سکندر جتوئی کا بیٹا ہوں۔
” شاہ رخ کی پٹائی کی وجہ ہونٹ پھٹ گئے تھے وہ جیسے گھر پہنچا اس کے کزن سلمان جتوئی اور رشتداروں نے پوچھا کہ کس نے مارا ہے ؟؟!! شارخ نے بتایا کہ راستے میں شادی تھی ان لوگوں نے مارا ہے۔ سلمان جتوئی نے شاہ رخ کو کہا کہ ہمارے ساتھ چلو دکھاو ¿ کس نے مارا ہے۔ یہ لوگ اسلحہ لے کر شادی والی جگہ پہنچے، شاہ زیب نے جب دیکھا کہ لڑکے ا ±س سے لڑنے آئے ہیں وہ کار میں خود کو بچانے کیلئے بھاگا۔ شاہ رخ والوں نے کار کا پیچھا کیا آگے جاکر شاہ زیب کی کار الٹ گئی۔ شاہ رخ کے کزن سنی جتوئی نے شاہ زیب پر سیدھے فائر کیئے اور م ±لزمان موقعہ سے فرار ہوگئے۔ ( یہ ساری تفصیل مجھے شاہ رخ جتوئی نے جہاز پر بتائی جو میں نوٹ کرتا گیا اور بعد میں سارے ملزمان سے پوچھ گچھ اور اصل حالات اور واقعات کو قریب سے دیکھنے کے بعد غیر جانبداری سے یہ نتیجہ اخذ کیا )مطلب یہ کہ شاہ زیب کا قتل Pre planned نہیں تھا واقعات کا تسلسل وجہ قتل تھی، میڈیا کوئی اور کہانی بتا رہا تھا مگر شاہ زیب کا قتل شاہ رخ ± کا راستے جاتے ہوئے مار کھانے کی وجہ سے ہوا۔
” پرچہ ہوگیا پرچے میں شاہ زیب کے والد (ڈی ایس پی اورنگزیب) نے شا ہ رخ کے ساتھ لاشاری اور نوکر کی وجہ سے مالکان دو ٹالپور بھائی بھی نامزد کر دیئے۔ جب میڈیا پر شور مچا تو شاہ رخ اورسلمان جتوئی دبئی بھاگ گئے۔ سلمان جتوئی کا لندن کا ویزا لگا ہوا تھا وہ لندن فرار ہو گیا۔ دوران تفتیش SIU میں تالپورں ( بڑے بھائی سراج اور چھوٹے بھائی سجاد) کا کہنا تھا کہ وہ شا ہ رخ کو نہیں جانتے اور شا ہ رخ کا کہنا تھا کہ قتل میں ا ±س کا کزن سلمان جتوئی اور دوسرے رشتہ دار ساتھ تھے وہ تالپورں اور لاشاری کو نہیں جانتا۔ جیساکہ میڈیا میں دوسری کہانی چل رہی تھی ہم نے اپنا شک دور کرنے کیلئے شا ہ رخ اور تالپورں کے موبائل فون کا کال ریکارڈ نکلوایا ہم نے پورے کال ریکارڈ کو چیک کیا شاہ رخ اور تالپورں کی آپس میں رابطے کی ایک کال بھی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی یہ لوگ ایک لوکیشن پر ایک ساتھ تھے !!!!
” ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان بھی ہائی پروفائیل کیسز میں لکیر کے فقیر والا کام کرتے ہیں، میں نے ایسے بھی ٹرائل کورٹ کے جج دیکھے ہیں جو کسی دن تفتیشی افسر کو اپنے چیمبر میں ب ±لا لیتے تھے اور ٹیبل پر قرآن پاک رکھ لیتے تھے اور پوچھتے تھے کہ اصل واقعہ کیا ہے ؟ اور کون اصل م ±لزم ہیں ؟ اور کون کون بے گناہ ہیں ؟؟ یا ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان اپنے طور پر علاقے کے لوگوں سے معلومات کی بنیاد پر اپنا جوڈیشل مائینڈ اپلا Judicial Mind Apply کرکے فیصلہ کرتے تھے۔ کیوں کہ Death penalty والے کیس میں پولیس کی بنائی ہوئی اسٹوری پر نہیں چلنا چاہیے
” شاہ رخ والوں کو عدالت نے سزائے موت سنادی ہے، شاہ زیب کے والد نے 53 کروڑ اور پوری فیملی کی آسٹریلیا کی سٹیزن شپ، گھر ، دبئی میں ایک ولا وغیرہ لے کر د ئیت کے قانون کے مطابق قتل معاف کردیا مگر اردو میڈیا کے شورشرابے پر سپریم کورٹ نے د ئیت کونہیں مانا مگر دوسری طرف ریمنڈوس کے دئیت پر کسی کو اعتراض نہیں۔ اس کیس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دو تالپور بھائی اور ان کا نوکر لاشاری مفت میں رگڑا کھا رہے ہیں شا ہ رخ والے تو سال میں اربوں روپے کما لیتے ہیں مگر تالپور والے سفید پوش لوگ ہیں ان کا گذر بسر مشکل سے ہوتا ہوگا۔ اللہ پاک سب کی اولاد کو ایسی آفت ناگہانی سے پناہ میں رکھے۔ کہاں سے بات کہاں تک جا پہنچی !!!! کیا لاشاری کا دلہن کو دیکھنا !!!!اور شاہ رخ کا ا ±سی وقت وہاں سے گذرنا !!!! اور لاشاری کا شاہ رخ کی گاڑی پر گرنا !!!! ۔ اللہ پاک سے ہر پل میں خیر و برکت طلب کرنی چا ہئے ۔ جب ہم طاقت کے نشے میں مست ہوتے ہیں تو اللہ پاک ایک مقررہ وقت پر ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے تعلقات اور اربوں روپیہ کسی کام کا نہیں۔ سکندر جتوئی کر کھرب پتی آدمی ہے۔ ا ±ن کے پاس اپنے ہیلی کاپٹر اور جہاز ہیں، بڑے بڑے حکومتی کرتا د ھرتا ، سول، ،فوجی اور عدالتی جج صاحبان سے ذاتی مراسم ہیں مگر یہ سب اللہ کی مشیعت اور حکم کے آگے بے بس اور لاچار ہیں“۔(علی حسن)