alu timatar lelo sahafi lelo

شاہراہِ اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے

تحریر:  محمد نواز طاہر۔۔

 پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی ایک بار پھر پورے زور و شور کے ساتھ زیرِ بحث ہے۔ یہ وہ بحث ہے جو قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک جاری ہے۔ شاہراہ آزادی پر چلنے والے مسافروں کا سفر کب مختصر ہوگا یا منزل ملے گی ؟ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ جب مسافر پیچھے کی جانب دیکھتا ہے تو اسے کئی سگنلز کی روشنیاں ایک دوقدم پر ہی دکھائی دیتی ہیں۔تقسیمِ ہند سے پہلے بھی بولنے کی آزادی سلب ہونے پر مزاحمت کی روشنی دکھائی دیتی ہے، آزادی ملی تو بھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی یعنی آزادی کے بعد بھی بولنے والے خود کو غلام ہی سمجھتے رہے اور سمجھ رہے ہیں تو پھر غلام ہی ہیں ، آزاد تو نہیں ہوئے ؟ پہلے تو ایک صدی تک برِ صغیر میں بسنے والے سرکارِبرطانیہ کی غلامی میںتھی اب کس کی غلامی ہے ؟س کاسادہ جواب یہ ہے کہ او ل تو ’قابلِ قبول ‘آزادی کا تعین نہیں کیا جاسکا تو دوئم طاقتور کسی دوسرے کو بولنے کی اجازت اپنی مرضی کے مطابق دینے کا خواہشمند ہے ۔

 آزادی کی اب تک کی مسلمہ تعریف ایک فرد کی آزادی دوسرے فرد کی حق تلفی سے پہلے ختم ہوجاتی ہے، ایک فرد اپنا ہاتھ مکمل طور پر ہوا میں لہرانے میں آزاد ہے بشرطیکہ کسی دوسرے فرد کی ناک سے نہ ٹکرائے ۔زبان کی آزادی یہ ہے کہ اس سے ادا کئے جانے والے الفاظ، غلط نہ ہوں ،کسی کی دل آزاری اور تضحیک کا باعث نہ بنیں، بہتان نہ ہوں ۔

بہت سے ایسے لوگ چلنے ، پھرنے، بولنے کی آزادی کا مطالبہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں جو کسی کی حق تلفی، بہتان نہیں لگاتے، دشنام طرازی، ارضیاتی دراندازی اور دل آزاری نہیں کرتے ، تو ایسی صورت میں یہ سوچنا لازم ہوجاتا ہے کہ آزادی سلب ہوری ہے ، کی جارہی ہے یا کی جاچکی ہے ۔ اب سوال یہ کہ آزادی سلب کون کرتا ہے ؟ظاہر ہے کہ اس کے ماسوا کوئی نہیں کرسکتا جو آزادی کے استعمال سے اپنے مفاد پر زد پڑتی محسوس کرتا ہو ۔ اس کی مثالیں دنیا بھر میں موجود ہیں اور تاریخ بھری پڑی ہے ۔ اسے لوگ بھی آزادی کے مطالبے کرتے دکھائی دیتے ہیں جو خود آزادی پر عملی یقین نہیں رکھتے ۔ تو کیا آزادی کی مسلمہ تعریف اور اصولوں سے ہٹ کر بھی اس کی کوئی ’قابلِ قبول ‘ تعریف اور اصول وضع کرنے کی ضرورت ہے ؟ تو پھر یہ کن بنیادوں ، شرائط ، حدود و قیود اور ضروریات کے پیشِ نظر کرنا ہوگی اور کوں کرنا ہوگی ، ایسی خواہش رکھنے والوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے اقدامات کیوں نظر انداز کرنا پڑیں گے ؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں’ اظہارِ رائے ‘ پر پابندی پر بحث پاکستا ن میں ختم نہ ہونے کی وجہ قول و فعل میں مجموعی تضاد ہے جو ہر سیاسی جماعت ، مذہبی، سماجی گروپ میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے جبکہ ریاست کے معاملات اس کے علاوہ ہیں اور شعبہ صحافت شائد ان سب میں پیش پیش ہے لیکن سب سے زیادہ اثرات بھی اسی پر ہیں اور بڑی حد تک محتاط بھی یہی ہے گوانحطاط بھی انتہائی درجے کے سیلاب جیسا ہے ۔

اظہارِ رائے کی موجود بحث اور لہر کا باعث سوشل میڈیا کے بنائے جانے والے قواعد وضوابط بنے ہیں ، ان ضوابط کی منظوری وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی ہے جسے پرلیمانی جمہوریت میں آئین و قانون کے تحت حق حاصل ہے، کابینہ کی نظر میں اس نے بہت اعلیٰ کارنامہ انجام دیا ہوگا لیکن ملک کے سیاسی ، مذہبی ، سماجی صحافتی اور قانونی حلقوں کی نظر میں یہ درست نہیں ہوا ، پارلیمان جب کوئی قانون بناتی ہے تو عدلیہ

 اس قانون کے قابلِ قبول نہ ہونے کی صورت میں اس کی’ اصلاح ‘ کا مشورہ بھی دیتی ہے اور ز خود باطل بھی قراردے دیتی ہے حالانکہ اس قانون کو ( اگر پارلیمانی عمل سے گذرنے کی صورت میں) پارلیمان نے بحث کے بعد منظور کیا ہوتا ہے ، اس یہ بات واضح ہوتی ہے کہ

 اچھا قانون ساز بہترین قانون دان بھی ہے، قانون سازی کے عمل میں ایسے لوگ بھی بحث میں حصہ لیتے ہیں جو مسودہ قانون پر اس کے قانونی پہلوﺅں کے بجائے صرف سیاسی گفتگو کرتے ہیں اور ہمارے یہاں قانون سازی کے عمل میں سیاسی رحجان بھی قانون سازی کی جذبے ، منشاء سے زیادی سیاسی حمایت اور مخالفت کی بنیا د رکھتا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے قانون ساز اپنی پارٹی کے ایجنڈے کے مطابق ہاں یا ناں میں ووٹ کرتے ہیں، ووٹ کرنے والوں ی بڑی تعداد یسی بھی ہوتی ہے جنھوں نے مسودہ قانون اول تو دیکھا ہی نہیں ہوتا ، دیکھا ہو تو پڑھانہیں ہوتا ، جنہوں نے پڑھا ہوتا ہے، پارلیمان میں ان کی رائے کا اظہار بھی پارٹی کے فیصلے کے طابع ہوتا ہے ۔

 جن قواعد و ضوابط کو اِس وقت مخالفت کا سامنا ہے، وہ کابینہ کی منظوری کے ساتھ ہی پارلیمان میں زیرِ بحث لائے بغیر نافذ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مذاحمت ہونے پر عمل درآمد روک دیا گیا ، یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ بہت سے قوانین بناتے وقت یہ گنجائش رکھی جاتی ہے کہ اس قانون کے پر عملدرآمد کے لئے قواعد بعد ازاں حکومت بنائے گی ۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے بنائے جانے والے متنازع قواعد پر مذاحمت کرنے والوں میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے) سرِ فہرست ہے ، میڈیا مالکان کی تنظیم بھی ساتھ ہے ، سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وکلاءاور سیاسی جماعتیں بھی مزاحم ہیں۔ اس میں پی اف یو جے واحد تنظیم ہے جس نے اپنے تحریری نصب العین مجریہ 1950 کے مطابق اظہارِ رائے کی اذادی کے لئے عملی طور پر قربانیاں دی ہیں، جیلیں اور قلعے کاٹے ہیں ، کوڑے کھائے ہیں اور صرف قربانیاں دی ہیں ان کا ثمر نہیں پایا ۔قربانیوں کی داستاں قلعے کے تاریک عقوبت خانوں کی دیواروں اور کوڑوں سے کمر پر قربانیوں کی داستاں رقم کرنے والے میں پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا موقف ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے قوعد پر سب سے پہلے مزاحمت کی ، ردِ عمل کا اظہار کیا جس کے بعد دوسروں کی آنکھ بھی کھلی اور مزاحمت پر حومت نے اپنے بنائے وئے قواعد پر عملدرآمد روک دیا ، ناصر زیادی کے مطابق ہم سبھی رولز اور حکومت کے اختیار کے مخالف نہیں ، ہمیں یہ قواعد بنانے اور عجلت میںمنظور کرنے کے طریقِ کار پر اعتراض ہے ، قواعد میں سے کچھ قابلِ قبول بھی ہوسکتے ہیں، اسی لئے ہماا مطالبہ ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے قواعد پر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لینا تشویشناک ہے، اس معاملے میں عوامی رائے عامہ کا احترام کیا جائے ، عوامی مشاورت یقینی بنائے جائے ۔

 سوشل میڈیا کے لئے بنائے جانے والے رولز پر پی ایف یو جے کو اعتراض بھی نہیں ہے بلکہ وہ ان کی حامی بھی ہوسکتی ہے جبکہ اس ضمن میں پہلے سے قوانین میں بھی موجود ہیں جن میں توہین آمیز قابلِ اعتراض مواد کی اشاعت قابلِ ذکر ہیں ۔پہلے سے رائج قوانین کے مطابق بہتان لگانے ، کسی کی مذہبی ، ذاتی دل آزاری کی اجازت نہیں ہے ، موجودہ متنازع قوعد و ضوابط میں سے کچھ ان معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ان پر کسی کوئی اعتراض نہیں البتہ مذہبی توہین آمیزمعاملات پر کچھ این جو اوز کا ایجنڈا جزوی طور پر مختلف ہوسکتا ہے ۔مجموعی طور پر کوئی بھی صحافی اس حق میں نہیں ہے کہ ایسی زبان کا استعمال سوشل میڈیا پر کرنے کی اجازت دی جائے جو اخبارات میں نہں لکھی جاسکتی جبکہ سوشل میڈیا  اس زبان سے بھرا پڑا ہے ۔

 سوشل میڈیا رولز پر پی ایف یو جے نے جو بحث شروع کروائی ہے ، اس میں بہت سے سٹیک ہولڈرز نمایاں ہوگئے ہیں خاص طور پر کچھ سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں خاصی متحرک ہیں لیکن قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ خود پی ایف یو جے نے اپنے یونٹوں میں اس معاملے پر مفصل بحث نہیں کروائی ، صورتحال اِدھر بھی وفاقی کابینہ سے مختلف دکھائی نہیں دیتی ۔ پی ایف یو جے کاڈسپلن سبھی کارکنوں پر لازم ہے لیکن کارکنوں کی رائے( اور اختلافِ رائے کے حق ) کا احترام بھی اس تنظیم کا خاصا ہے جو اسے صحافیوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے باقی گروپوں میں ممتاز رکھتا ہے ، باقی گروپوں میں اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میںعملی جدوجہدکی سوچ نہیں بلکہ ”سوشل میڈیا“ جیسا انداز ہے ، کچھ عناصر ایسے بھی موجود ہیں جنھوں نے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے کارکنوں کے مفاد کو عدالتوں تک میں زد پہنچانے کی بھی کوشش کی ، پی ایف یو جے میں اس وقت سوشل میڈیا رولز اور اظہارِ رائے پر پابندیوں کے حوالے سے جاری بحث میں کارکن کچھ اختلافِ رائے رکھتے ہیں ، یہ اختلافِ رائے قیادت سےنہیں بلکہ ایجنڈے سے ہے ۔ کارکنوں کا خیال ہے کہ پی ایف یو جے بھلے اپنے نصب العین کے مطابق متنازع قواعد اور پابندیوں کی مزاحمت کررہی ہے لیکن پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ اظہارِ رائے کی جنگ ضروری ہے یا پھرآئے روزبھوک سے مرتے کارکنوں کی زندگیاں بچانا ضروری ہیں ؟ میڈیا انڈسٹری میں جاری معاشی بحران پر کارکنوں میں جو غالب رائے پائی جاتی ہے اس کے مطابق اظہارِ رائے اب سیکنڈری پوزیشن پر ہونا چاہئے ، جن لوگوں کے ساتھ مل کر اظہارِ رائے کی جنگ لڑی جاررہی ہے انہیں کارکنوں کی معاشی جنگ میں بھی شامل کیا جائے ۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جب جب کارکنوں نے اظہارِ رائے کی جنگ لڑی ، ریاست کے ساتھ لڑائی کی تو ’ جنگ بندی‘ کے بعد کارکن تنہا رہ گئے اور باقی سٹیک ہولڈرز شناسائی کو بھی ٹرین کے آخری ڈبے کی طرح گُم ہوگئے ، اب پھر سبھی ایک ٹرین کے مسافر ہیں تو اگلا اسٹیشن آنے اور مسافروں کے بچھڑنے سے پہلے کم از کم ، کچھ نہ کچھ اصول طے کرلئے جائیں کہ کیا اکانومی کلاس کے بھوکے مسافر ٹرین سے اترنے کے بعد بھی بھوکے ننگے کسی صحرا میں پیدل سفر پر روانہ ہونگے اور اسی صحرا میں آزادی اظہار کے نعرے لگاتے ہوئے لیلیٰ ، لیلیٰ پکارے زندہ درگور ہوجائیں گے؟ٹرین کا سفر کرنے اور پلیٹ فارم پر رہ جانے والے یہ بہر حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمین تو بنجر نہیں مگر پانی سوکھ رہا ہے ، کہیں گم ہو رہا ہے ، گہرائی میں جارہا جس سے صحرا وسیع ہوتے ہوئے بہت سی آبادی کو کھا رہے ہیں اور اس نے جِن جیسے بازو پھیلائے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے بھی کارکن مفصل گفتگو چاہتے ہیں ،کچھ (مجھ جیسے ناسمجھ) کارکنوں کی رائے ہے آزادی اظہار رائے کا تعین ہو جانا چاہئے ، آزادیِ اظہار رائے پر قدغن لگانے والے تمام سیاسی، غیر سیاسی تمام عناصر کی نشاندہی بھی ہو جانا چاہئے ، اگر ایسا نہیں ہوتا توجس اظہارِ رائے کی مخالفت میں پاک سر زمین پر ایک سے زائد بار آگ لگ چکی ہے ، اس کی مخالفت کا جواز کیا رہ جائے گا؟(محمد نواز طاہر)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں