baryar family ka asal karoobari chehra

شاہد خاقان عباسی نون لیگ چھوڑ چکے، رؤف کلاسرا کا دعویٰ۔۔

سینئر صحافی ، اینکرپرسن اور کالم نویس رؤف کلاسرا نے دعوی کیا ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (ن) لیگ تقریباً چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم بننا کسی معجزے سے کم نہ تھا کیونکہ شریف خاندان اپنے سے باہر کسی کو کوئی بڑا عہدہ دینے کو کبھی تیار نہیں ہوتا۔دنیا اخبار میں اپنے تازہ کالم میں رؤف کلاسرا لکھتے ہیں کہ  نواز شریف کی نااہلی کے وقت پہلے سوچا گیا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے لیکن پھر خیال آیا کہ پنجاب تو سونے کی کان ہے‘وہاں سینکڑوں پراجیکٹس چل رہے تھے جن پر اربوں خرچ ہورہے تھے اور اتنا بڑا پیسہ کسی اور کے ہاتھ میں دینے کا خطرہ کون مول لے؟ اسحاق ڈار بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے کیونکہ وہ سینیٹر تھے ورنہ اپنا رشتہ دار ہی وزیراعظم بنتا۔یوں قرعہ شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا‘ اگرچہ اس وقت کچھ اور نام بھی چل رہے تھے جن میں احسن اقبال‘ خواجہ آصف اور ایاز صادق شامل تھے۔ اب شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم تو تھے لیکن پاورز اُن کے پاس نہیں تھیں۔ 2022ء میں وہ نواز شریف سے اُس وقت ناراض ہوگئے تھے جب ان کے قریبی دوست مفتاح اسماعیل کو اسحاق ڈار نے وزارتِ خزانہ سے ہٹوایا۔  شاہد خاقان عباسی اس فرمائش پر راضی ہوگئے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہی بنے گا۔ مفتاح اور عباسی کی پرانی دوستی ہے اور دونوں نے مل کر بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے ہیں جس وجہ سے دونوں نیب کی جیل بھی بھگت چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم کے عہدے سے زیادہ اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی پسند رہی ہے۔ وہ نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ اگر انہیں دوبارہ کوئی عہدہ قبول کرنا ہوا تو وہ اس کمیٹی کے چیئرمین لگیں گے۔ اس کمیٹی کا چیئرمین وزیرخزانہ ہوتا ہے اور اس کمیٹی میں اربوں روپے کے فیصلے اور لمبے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور اسحاق ڈار کے تعلقات کبھی آئیڈیل نہیں رہے۔ اسلئے شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف سے مفتاح اسماعیل کو وزیر لگوایا اور وہ خود بھی سپیشل انتظامات کے تحت اس کمیٹی میں کبھی کبھار شریک ہوتے اور دونوں پرانے دوست خوب کارنامے سر انجام دیتے تھے۔ ڈار لندن بیٹھ کر سب کچھ دیکھ رہے تھے اور انہوں نے آخر مفتاح کو ہٹوادیا جس پر شاہد خاقان عباسی ناراض ہوئے اور بات مریم نواز پر اعتراض سے ہوتی ہوئی پارٹی چھوڑنے تک پہنچ گئی۔اب کی دفعہ شاہد خاقان عباسی الیکشن لڑنے سے دستبردار ہوگئے اور آج کل کھل کر تقریریں کرتے ہیں اور اپنی ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ نہیں ایک ملازمت تھی جس میں انکے پاس اختیارات نہ تھے۔ دوسری طرف بتایا جاتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود دوبارہ وزیراعظم بننے کے امیدوار تھے جبکہ نواز شریف خود چوتھی دفعہ کا کھیل کھیل رہے تھے۔رؤف کلاسرا کے مطابق مقتدرہ بھی چاہتی تھی کہ شاہد خاقان عباسی کو دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے کیونکہ ان کی صلاحیت نواز شریف اور شہباز شریف سے زیادہ ہے۔ اب عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ تو بس ملازمت تھی جس میں ان کے پاس پاورز نہ تھیں۔ وہ شاید نواز شریف اور مریم کی طرف اشارہ کررہے ہیں کیونکہ مریم نواز وزیراعظم ہاؤس میں رہتیں اور حکومت چلاتی تھیں جبکہ شاہد خاقان عباسی ایف ایٹ سیکٹر گھر میں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں