تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان
فیض احمد فیض جب پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر بنے تو انھوں نے اخبارات کے ایڈیٹروں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے ساتھ حمید نظامی، مولانا اختر علی خان، الطاف حسین وغیرہ نمایاں تھے۔
پھر ایم اے شکور، اسرار احمد، غیور اسلام اور صفدر قریشی وغیرہ نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (P.F.U.J) قائم کی۔ پی ایف یو جے نے تنخواہوں کے اسکیل و دیگر مراعات کے ساتھ آزادئ صحافت کے حق کو منوانے کے لیے جدوجہد کی۔ منہاج برنا ، کے جی مصطفی اور نثار عثمانی وغیرہ نے مختلف ادوار میں پی ایف یو جے کی قیادت کی۔ اخباری صنعت صحافیوں کے علاوہ غیر صحافتی عملے پر مشتمل ہے۔ پی ایف یو جے نے 1970ء میں غیر صحافتی عملے کو عبوری امداد دلانے کے لیے 10روز تک تاریخی ہڑتال کی۔ اس ہڑتال کی بناء پر 10 کے قریب صحافی ملازمتوں سے برطرف ہوئے۔ اسرار احمد اور منہاج برنا کی قیادت میں پی ایف یو جے کی جدوجہد کے نتیجے میں بھٹو حکومت نے نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ نافذ کیا۔ اب اخبارات میں مزدور یونین قائم ہونا شروع ہوئیں۔
ملک کے اس وقت کے سب سے بڑے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (P.P.L) میں مزدور یونین کے پہلے صدر سینئر صحافی اے ٹی چوہدری بنے۔ غیر صحافتی عملے کے رہنماؤں میں حفیظ راغب ، احمد علی علوی کے بعد ایک نمایاں نام شفیع الدین اشرف کا ہے۔ شفیع الدین اشرف گزشتہ ہفتے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کرگئے۔ شفیع الدین اشرف کے والدین بٹوارے کے بعد ہجرت کرکے سابقہ مشرقی پاکستان کی بندرگاہ چٹگانگ میں آباد ہوئے۔
بنگلہ دیش کے پہلے خون ریز فسادات میں ان کے خاندان کے بیشتر لوگ قتل کردیے گئے۔ شفیع الدین اشرف جب ملازمت کے لیے کراچی میں روزنامہ ڈان کے دفتر آئے تو ان کی ملاقات بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی شفیع ادبی سے ہوئی۔ شفیع ادبی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال کارکنوں میں شامل تھے۔ شفیع ادبی نے این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ایوب آمریت کے خلاف فعال جدوجہد کی تھی۔ انھیں اس جدوجہد کے عوض قیدوبند کی صعوبتوں اور مختلف کالجوں سے برطرفی کے پروانوں کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ شفیع ادبی طلبہ تحریک سے فارغ ہونے کے بعد روزنامہ حریت میں ملازمت کرنے لگے۔ انھوں نے پی ایف یو جے کو منظم کرنے میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔ شفیع الدین اشرف ، شفیع ادبی سے رابطوں کے بعد ٹریڈ یونین کی اہمیت سے آگاہ ہوئے۔
1976ء میں پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا نے اخباری اداروں میں فعال ٹریڈ یونینوں کو آل پاکستان نیوزپیپر ایمپلائز کنفیڈریشن (APNEC) کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اب صحافیوں کے رہنماؤں کے علاوہ غیر صحافتی عملے کے نمایندے بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ 80ء کی دہائی میں ایک صحافی عبدالقدوس نے ڈان ہاؤس کی یونین کی قیادت سنبھال لی۔ شفیع الدین اشرف عبدالقدوس کے معاونین میں شامل تھے۔ پھر شفیع الدین اشرف نے اردو لا کالج سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی، یوں وہ قوانین کے مطالعے کی طرف راغب ہوئے ۔ اشرف نے لیبر قوانین کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا۔ خاص طور پر انھوں نے اخباری صنعت سے متعلق قوانین کو ازبر کرلیا، شفیع الدین اشرف، عبدالقدوس کی قائم کردہ تحریک کا حصہ بن گئے۔
شفیع الدین اشرف نے محض اپنے دفتر تک ہی اپنی سرگرمیاں محدود نہ رکھیں بلکہ وہ لیبرکورٹ جا کر مزدوروں کے مقدمات کی پیروی بھی کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مزدور یونین کے دفاتر میں بیٹھ کر کارکنوں کے مقدمات سنا کرتے اورکارکنوں میں قوانین پر عبور حاصل کیا ۔ شفیع الدین اشرف نے عبدالقدوس کی قیادت میں انتظامیہ سے مذاکرات کے ذریعے زیادہ مراعات حاصل کرنے کا فن سیکھ لیا۔ عبدالقدوس اچانک دل کا دورہ پڑجانے سے انتقال کرگئے۔ نثار عثمانی کے انتقال اور برنا صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد عبدالقدوس نے قیادت کا فریضہ بخوبی انجام دیا تھا۔ اب قدوس صاحب کے اچانک انتقال سے یہ خوف پیدا ہوچلا تھا کہ اخباری صنعت کی ٹریڈ یونین تحریک ختم ہوجائے گی مگر اس نازک موقعے پر شفیع الدین اشرف نے قیادت سنبھال لی۔
وہ ایپنک کے مرکزی چیئرمین ہوئے ۔ وہ صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کی اجرتوں کے تعین کے لیے قائم ہونے والے ویج بورڈ کی رکن بنادیے گئے۔ ویج بورڈ میں صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کی نمایندگی کا فریضہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کی قیادت کی ذمے داری تھی کہ وہ مالکان اور حکومتی نمایندوں کو نئے پے اسکیل اور مراعات پر تیار کرے۔ یہ سب کچھ دھمکی اور دباؤ کے ماحول میں ممکن نہ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حقیقی اعداد وشمار اور منطق کے اصولوں پر مبنی دلائل کی ضرورت ہوتی تھی۔ بورڈ کے زیادہ ترا جلاس اسلام آباد میں ہوتے ہیں، یوں شفیع الدین اشرف تواتر سے اسلام آباد جاتے۔ وہ وزارت محنت اور وزارت اطلاعات کے افسروں سے مسلسل رابطے میں رہتے اور ضروری اعداد وشمار حاصل کرتے تھے۔
ویج بورڈ کے اجلاس میں ان اعداد وشمار کی بنیاد پر دلائل پیش کرتے۔ ویج بورڈ کے اجلاسوں میں شریک بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ شفیع الدین اشرف اتنی تیاری کے ساتھ دلائل دیتے کہ سب اراکین ان دلائل پر اتفاق کرتے۔ شفیع الدین اشرف ویج بورڈ ایوارڈ کے عملدرآمد کے قومی کمیشن اور لیبر کورٹس میں اپنے ساتھیوں کی طرف سے پیش ہوتے اور ان کے مؤقف کے حق میں دلائل دیتے اور دستاویزات پیش کرتے۔شفیع الدین اشرف گزشتہ سال کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے، وہ چھ ماہ تک اس مرض کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔
وہ گزشتہ ہفتے کراچی کے ایک اسپتال میں زندگی کی جنگ ہار گئے۔ انگریزی کے ایک اخبار کے ایڈیٹر جو شفیع الدین اشرف کے جنازے میں شریک تھے یہ بتارہے تھے کہ اشرف پہلے ڈان یونین کی منتخب مینیجنگ کمیٹی کے رکن بنے اور پھر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ وہ اپنے دفتر میں منظم انداز میں کام کرتے۔ ان کی یونین کے دفتر میں ویج بورڈ سے متعلق تمام دستاویزات اس موضوع پر اخبارات میں شایع ہونے والی کتابوں اور اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں، اداریوں اور آرٹیکلز کا تمام ریکارڈ ترتیب کے ساتھ موجود تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شفیع الدین اشرف ان گنت کاموں کے علاوہ اس ریکارڈ کو ترتیب سے جمع کرنے پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔
خورشید تنویر صحافت میں شمولیت کے بعد ٹریڈ یونین تحریک سے منسلک ہوگئے تھے اور یونین کے مختلف عہدوں پر فائز رہے، کا کہنا ہے کہ شفیع الدین اشرف نے ساری زندگی جدوجہد میں صرف کی اور اپنی پوزیشن سے کبھی کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ انھوں نے بغیر کسی امتیاز کے ہر شخص کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ شفیع الدین اشرف کی مقبولیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے جنازے میں اخباری صنعت سے متعلق تمام تنظیموں سے وابستہ عہدیداروں اور کارکنوں نے شرکت کی۔ جنازے میں شریک بعض شرکاء اس بات کا ماتم کررہے تھے کہ ٹریڈ یونین کا حقیقی شعور اور قوانین پر کڑی نظر رکھنے والا ایسا رہنما دنیا سے گزر گیا جس کا نعم البدل ممکن نہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔