تحریر: خرم شہزاد۔۔
ملک ریاض صاحب نے ایک جملہ بڑا خوبصورت کہا تھا کہ جن لوگوں نے کبھی آٹھ روپے کا کاروبار بھی نہیں کیاہوتا وہ بھی دوسروں کو باتیں کرتے ہیں ۔ مجھے یہ بات اس لیے یاد آئی کہ کاروبار کے حوالے سے ہر شخص کی اپنی ایک پہنچ ہوتی ہے، یہ پہنچ سوچ اور کاروباری سوجھ بوجھ کا دوسرا نام ہے۔ کاروباری شخص جانتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے اور کب نہیں، کون سی چیز کب روکنی ہے اور کب مارکیٹ میں بس ایک ہی چیز نظر آنی چاہیے۔ ایک عام شخص جو کبھی آٹھ روپے کا کاروبار کرتے ہوئے دو روپے منافع کمانے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ بھی کروڑوں اور اربوں روپے کے سرمایہ کاروں اور کاروباریوں کے فیصلوں پر نہ صرف اپناموقف دے رہا ہوتا ہے بلکہ ان لوگوں کو کاروباری گر بتانے کے ساتھ ساتھ نقصان سے بچنے کے طریقے بھی سیکھا رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں سٹاک مارکیٹ سے لے کر میڈیا کے کسی دفتر میں بیٹھے ہوئے سیٹھ تک ، سبھی نہ صرف مسکرا رہے ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کی باتوں کو دیکھتے ہوئے آنے والے کل میں کسی طور اس شخص کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہونے والے منافع کا بھی حساب کر رہے ہوتے ہیں۔
اگر آج سے بیس پچیس سال پیچھے چلے جائیں تو گلی محلوں میں بہت سی دکانیں ہوا کرتیں تھیں جن پر محلے داروں کا بھی کافی رش ہوتا تھا۔ عنقریب ریٹائر ہونے والے بہت سے افراد کی سوچ بھی یہی ہوتی تھی کہ کوئی چھوٹی سی دکان کھول لیں گے کہ روزی روٹی چلتی رہے۔ یوں گلی محلے میں بہت سی چھوٹی چھوٹی دکانیں نظر آتیں ، جن کی وجہ سے محلے کی بڑی دکانوں کی ٹافیوں اور بسکٹوں کی فروخت ہمیشہ متاثر ہوتی کیونکہ لوگ زیادہ تر ایک پیکٹ بسکٹ خریدنے کے لیے زیادہ دور جانے کا تردد نہیں کرتے۔ رفتہ رفتہ اس کام میں کچھ پیسے والے افراد داخل ہوئے اور پھر شہروں میں شاپنگ مالزکی بڑی بڑی عمارتیں نظر آنا ایک عام بات ہو گئی ہے، جہاں ضروریات زندگی کی ہر چیز دستیاب بلکہ عام مارکیٹ سے مہنگی بھی ہوتی لیکن لوگ نہ صرف یہ مہنگی خریداری کرتے ہیں بلکہ اس کے بارے میں دوسروں کو بھی بتاتے ہیں۔ اگر کہیں قریب شاپنگ مال موجود نہیں تو کیش اینڈ کیری یا ڈیپارٹمنٹل سٹور ضرور موجود ہو گا جہاں سے ضرورت زندگی کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ ایسے میں بھلا چار چیزوں کے لیے گلی کی چھے دکانوں پر کون جائے گا، یوں اب گلی محلے کی دکانیں بس فوری ضرورت کی کسی چیز کے لیے پہلا انتخاب تو ہوتی ہیں لیکن مہینے بھر کی اکٹھی خریداری کے لیے شاپنگ مالز، کیش اینڈ کیری یا ڈیپارٹمنٹل سٹور ہی واحد انتخاب ہوتے ہیں۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ صحافت کی بات کرنے والے کہاں ہمیں پرچون کی دکانوں پر گھما پھر ا رہے ہیں تو ایسا سوچنے کے بجائے صرف یہ سوچئے کہ جن لوگوں کے پاس پیسہ تھا اور وہ پرچون کے کاروبار میں داخل ہوئے تو کیا انہوں نے چھوٹے دکان داروں سے درخواست کی کہ بھیاءاب ہم یہاں کاروبار کرنے لگے ہیں لہذا آپ اپنا بوری بستر سمیٹ لویا آپ کی یہ چھوٹی سی دکان میرے بیکری کے کاونٹر کا حساب کتاب خراب کر رہی ہے۔ نہیں ۔۔۔ بلکہ انہوںنے اپنا سیٹ اپ ہی اتنا بڑا اور شاندار لگایا کہ اب کوئی چھوٹی دکانوں پر جاتا ہی نہیں ہے۔ چھوٹی دکانیں نہ صرف ختم ہو رہی ہیں بلکہ اب ریٹائر ہونے والوں میں بھی چھوٹی سی پرچون کی دکان کھولنے کا رجحان ختم ہونے کے قریب ہے۔ اب اسی سوچ اور انداز کو لے کر میڈیا کی طرف نظر کیجئے۔ اسی بیس پچیس سال پہلے کی بات ہے کہ چند گنے چنے اخبارات ہوتے تھے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری اشتہارات کی آمدنی انہی کی ہوتی تھی۔ پھر کیبل ٹی وی والے آئے لیکن ایک عرصے تک یہاں بھی چند مخصوص چینل ہی موجود تھے اور ناظرین انہی چار چھے چینلز کے سامنے بیٹھے ہوتے تھے لیکن پھر وقت بدلا۔۔۔ ریٹائر لوگوں کی پرچون کی دکانوں کی طرح جس کے پاس چار چھے لاکھ جمع ہوئے وہ اخبار کا ڈکلیریشن لینے پہنچ گیا اور جس کے پاس پچیس کروڑ ہو گئے وہ چینل کے لیے درخواست گزار ہونے لگا۔ ان چھوٹے چینلوں کے پاس اگرچہ بیچنے کو کچھ خاص نہ تھا لیکن بڑے چینل اور اخبارات کی اشتہارات کی آمدنی اور ناظرین و قارئین توڑنے کو بہت کچھ تھا، یوں بڑوں کا کاروبار متاثر ہونے لگا۔ میڈیا کو ہمیشہ انڈسٹری کہتے ہیں یعنی میڈیا ایک مکمل کاروبار ہے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کاروبار میں آپ یا خبر کی کوئی اہمیت ہے تو آپ سے چھوٹا بیوقوف ڈھونڈنا پڑے گا۔ کاروبار میں اہمیت صرف کاروبار یعنی پیسے کی ہوتی ہے اور اس پر کوئی بھی روک یا کمی ہمیشہ اچھے کاروباریوں کو بڑے فیصلے کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ بارہ پیسے مصالحے کی قیمت بڑھانے پر کاروباریوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی بناتے ہوئے نہ صرف مصالحے کی مارکیٹ پر قبضہ کیا بلکہ قیمت بڑھانے والوں کا مارکیٹ اور خطے سے ہی خاتمہ کر دیا۔ ایسا ہی کچھ اب پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں بھی ہونے جا رہا ہے کہ وہ بڑے اخبارات اور چینل جو برسوں سرکاری اور غیر سرکاری اشتہارات کے اکلوتے مالک ہوتے ہوئے حکومتی مراعات اور عوامی ذہن سازی میں اکلوتا انتخاب تھے اب اس میدان میں اکلوتے نہیں رہے تو انہوں نے سوچا کہ اب اگر وہ اکلوتے نہیں رہے تو کوئی اور باقی بھی نہیں رہنا چاہیے۔ میڈیا انڈسٹری میں جاری بحران اسی کھیل کا حصہ ہے کہ بڑے کھلاڑیوں نے اب چھوٹے بچوں کو میدان سے باہر نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہی بچوں کی وجہ سے نہ تو وہ کھل کر کھیل سکتے تھے اور نہ میدان ان کی اجارہ داری کا گواہ ہوتا تھا۔ سٹاک مارکیٹ سے لے کر میڈیا انڈسٹری تک، چند ہزار یا لاکھ کی سرمایہ کاری والا چھوٹا کاروباری ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہا ہے اور اس کے ڈوبنے کا فائدہ بھی بڑے کاروباری افراد نے اٹھایا کہ بحران کا واویلہ کرتے ہوئے ملنے والی مراعات کا اکلوتا مستحق قرار پاتا ہے کیونکہ بحران میں چھوٹا کاروباری تو پہلے ہی ڈوب چکا ہوتا ہے۔
آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحافتی ایسٹ انڈیا کمپنی کا کھیل شروع ہو چکا ہے اور بڑے چینلز اور اخبارات کی طرف سے پیدا کردہ مصنوعی بحران کے بعد بہت سے چینل و اخبارات بند ہو چکے ہیں اور کئی بند ہونے کے قریب ہیں ۔یوں ان تمام چینل و اخبارات کے اشتہارات کی آمدنی ایک بار پھر صرف چند مخصوص چینل اور اخبارات آپس میں ہی بانٹیں گے۔ اس بحران کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ کارکنوں کو نکالنے اور ان کی تنخواہیں کم کرنے میں جو مشکلات تھیں وہ بھی حل ہو گئیں اور اب کوئی بھی ادارہ بڑی آسانی سے نہ صرف کارکنوں کو نکال سکتا ہے بلکہ باقی رہ گئے لوگوں سے کم تنخواہ پر کام یا بیگار بھی لے سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بڑوں کے لیے چوپڑی بھی اور دو دو بھی۔۔۔ عنقریب میڈیا انڈسٹری کا یہ بحران ختم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں یہاں چند مخصوص اخبارات اور چینل ہی رہ جائیں گے، وہی تمام سرکاری و غیر سرکاری اشتہارات کے نہ صرف مالک ہوں گے بلکہ عوامی ذہن سازی کے نام پر حکومتی مراعات کے بھی مستحق بھی۔ آپ اور ہم پھر انہی چند لوگوں کے جھوٹ کو سچ سمجھیں گے اور ان کے سچ کی قیمت حکومت اور متعلقہ لوگ ادا کرتے ہوئے اپنی کرسی اور عزت بچانے کی کوشش کریں گے۔۔۔ آپ سب کو صحافتی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دو ر میں خوش آمدید۔۔۔(خرم شہزاد)