تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،برطانیہ میں ایک مرد اور عورت اپنی اپنی شادی بچانے کے لیے ’میرج تھراپی کورس‘ کرنے گئے اور وہاں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنے اپنے شریک حیات سے طلاق لے کر باہم شادی کر لی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایما نامی خاتون کا اپنے شوہر کے ساتھ تعلق سرد مہری کا شکار ہو چکا تھا۔ اسی طرح میتھیو پروئن نامی شخص کے ازدواجی تعلقات بھی تلخی کا شکار تھے۔یہ دونوں اپنی اپنی شادی بچانے کے لیے اس تھراپی کورس میں گئے اور وہاں ان دونوں کے درمیان دوستی ہو گئی جو کچھ عرصے میں محبت میں بدل گئی اور وہ اپنے جن پارٹنرز کے ساتھ شادی بچانے کے لیے کورس میں گئے تھے، ان سے طلاق لے کر باہم میاں بیوی بن گئے۔ رپورٹ کے مطابق اب ایما اور میتھیو کی شادی کو 15سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ ایسٹ سسیکس کے علاقے میں 2003میں اس ڈویلپمنٹ کورس میں پہلی بار ملے تھے۔ایما نے بتایا ہے کہ میتھو کی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد مجھے علم ہو گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے لوں۔ جب میں نے میتھیو سے اس حوالے سے بات کی تو اس نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا اور پھر ہم دونوں نے اپنے اپنے پارٹنر سے علیحدگی اختیار کر لی اور اکٹھے رہنے لگے۔ اس کے ایک سال بعد ہم نے شادی کر لی۔ میں اور میتھیو باہم جس قدر خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، ہم نے اپنے اپنے پارٹنرز کے ساتھ کبھی ایک دن بھی اتنا خوشگوار نہیں گزارا تھا۔
برطانیہ کے حوالے سے ایک اور پکی خبریہ ہے کہ۔۔برطانیہ میں ایک دلہن نے اپنی شادی کی تقریب میں 70سال سے زائد عمر کے لوگوں کی شرکت پر پابندی عائد کر دی۔ ایک برطانوی اخبارکی رپورٹ کے مطابق اس دلہن نے اپنے اس فیصلے کے متعلق ویب سائٹ ’Reddit‘ پر صارفین کو بتایا ہے۔ وہ اپنی پوسٹ میں لکھتی ہے کہ 70سال سے زائد عمر کے لوگ بہت افسردہ رہتے ہیں اور ڈپریشن کے شکار لگتے ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ تقریب میں مہمانوں کی توجہ مجھ سے ہٹ کر ان عمر رسیدہ لوگوں کی طرف ہو، لہٰذا میں نے ان کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دلہن لکھتی ہے کہ ’’میرے اس فیصلے کو میری فیملی اور دوست احباب میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ کیا مجھے حق نہیں پہنچتا کہ اپنی شادی کے دن میں اپنی مرضی چلا سکوں؟‘‘ دلہن نے یہ پوسٹ انٹرنیٹ صارفین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کی تھی تاہم یہاں بھی لوگوں نے اسے کڑی تنقید کا نشانہ بناڈالا۔اکثر صارفین کمنٹس میں اسے ایک خودغرض خاتون قرار دے رہے ہیں۔ ایک شخص نے لکھا ہے کہ ’’تم ایک بدتر انسان ہو۔ اگر میں تمہارا رشتہ دار یا دوست ہوتا تو اس حرکت پر تمہاری شادی میں شرکت سے انکار کر دیتا۔‘‘
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع اندور میں عدالت نے خود سے 27 سال چھوٹی بیوی کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والے شوہر کی ضمانت کی درخواست خارج کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق اندور کے ایک بڑے سنار نے اکتوبر میں خود سے 27 برس چھوٹی دلت لڑکی سے شادی کی تھی۔ خاتون نے پولیس کو درج کرائی گئی شکایت میں بتایا کہ اس کے 67 سالہ شوہر نے شادی کی پہلی ہی رات اپنی نقلی بتیسی سے اس کے جسم پر کاٹ لیا۔ خاتون کے مطابق اس کی مخالفت پر شوہر نے دھمکی دی کہ وہ بہت امیراور بارسوخ آدمی ہے اور میرے پورے خاندان کو قتل کرادے گا۔ خاتون نے پولیس کو اپنے زخم دکھائے جن کی میڈیکل رپورٹ میں بھی تصدیق ہوگئی۔ پولیس نے شوہر کی نقلی بتیسی ضبط کرتے ہوئے اسے حراست میں لے لیا۔ بعد ازاں ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا جس نے اس کی ضمانت مسترد کردی۔ایک صاحب اخبار پڑھ رہے تھے اچانک انہیں ایک آرٹیکل نظر آیا۔۔’’بیوی کو قابو میں کیسے رکھیں ؟ ‘‘۔۔اتنی خوشی ہوئی کہ دھڑکن بڑھ گئی ،پورا آرٹیکل ایک ہی سانس میں پڑھ لیا۔لکھا تھا۔۔۔ صبح ٹہلنے جائیں ،زیادہ ہری سبزیاں کھائیں ، غصہ نہ کریں ،کھانے پینے کا دھیان رکھیں ،ریگولر چیک اپ کرائیں ، وغیرہ وغیرہ۔۔بعد میں پھر سے عنوان پڑھا۔دماغ خراب ہوگیا۔۔لکھا تھا۔’’بی پی کو قابو میں کیسے رکھیں ؟۔۔اب کل آنکھیں چیک کرانے جاناہے۔
آپ نے میاں بیوی کے مابین طلاق کے بعد جائیداد کی تقسیم یا بچوں کی حوالگی کا معاملہ تو سنا ہوگا لیکن اب سپین میں پالتو جانوروں کی حوالگی کا عمل بھی قانونی دائرے میں لانے پر غور جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق سپین میں پالتو جانوروں کی ’فلاح و بہبود‘ پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے جس کے تحت میاں بیوی کے مابین طلاق یا علیحدگی کی صورت میں مشترکہ تحویل حاصل کی جاسکے گی۔پالتو جانوروں کی حوالگی کا عمل فرانس اور پرتگال میں بھی قانونی دائرے میں ہوتا ہے جہاں ججوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ پالتو جانوروں کو ایک ملکیت والی اشیا سمجھنے کے بجائے احساسات پر مبنی مخلوق سمجھیں۔ ماہرین قانون کاکہنا ہے کہ ۔۔ جانور خاندان کا حصہ ہیں اور جب کوئی خاندان الگ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو جانور کی تقدیر کو بھی اسی اہمیت کے ساتھ کنٹرول کیا جانا چاہیے جو خاندان کے دیگر افراد کی قسمت کا ہے۔اکتوبر میں میڈرڈ کے ایک جج نے ایک غیر شادی شدہ جوڑے کو کتے کی مشترکہ تحویل میں دے دیا تھا جس نے عدالتی فیصلے پر درخواست کی تھی کہ علیحدگی کے بعد پالتو جانور کو کس کے ساتھ رہنا چاہیے۔ کتا ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ماہ گزارتا ہے اور دونوں قانونی طور پر ذمہ دار ہیں۔جانوروں کے حقوق کے سرگرم ’رائٹس اینڈ اینیملز‘ قانونی تبدیلیوں کے سلسلے میں اسے ایک بڑا اہم قدم تصور کیا ہے۔خیال رہے کہ یورپی ممالک میں شامل سپین میں پالتو جانوروں کی ملکیت کا معاملہ بہت زیادہ ہے اور بائیں بازو کی مخلوط حکومت جانوروں کے حقوق کے لیے مزید قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں سرکس میں جنگلی جانوروں پر پابندی اور دکانوں میں پالتو جانوروں کی فروخت کو روکنا شامل ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ٹھنڈکے ساتھ ساتھ دکھ بھی بڑھ رہے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔