تحریر: حمادرضا۔۔
چودھری نوردین کا شمار گاؤں کے سیانے بیانے بندوں میں کیا جاتا تھا اور کیوں نا کیا جاتا چودھری صاحب اسکول کے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے اور زمین پانڈا بھی اچھا تھا اوپر سے چودھری صاحب کے دونوں بیٹے شہر میں وکالت کرتے تھے جس کی وجہ سے چودھری صاحب کے رتبے میں مزید اضافہ ہو گیا تھا گاؤں کی پریا پنچائیت کے فیصلوں میں بھی چودھری صاحب کی راۓ کو حتمی تصور کیا جاتا تھا یہ جنوری کی ایک دھندلکی شب تھی جب میں چودھری صاحب سے ملنے کی غرض سے ان کے پاس گیا ہمیشہ کی طرح ان کے پاس چار سے پانچ افراد پہلے سے ہی موجود تھے انگیٹھی میں دہکتے انگاروں کی حرارت اور ہوا میں گھلے حقے کے تمباکو کی خوشبو نے ایک مخصوص دیہاتی سماں باندھ رکھا تھا سلام دعا کے بعد مجھے بیٹھے ابھی کچھ ساعتیں ہی گزری تھیں کہ اتنے میں دتہ پوسٹ مین کمرے میں داخل ہوا اس نے نشست پر بیٹھتے ہی حقے کے ایک دو گہرے کش لگاۓ اور نہایت پریشانی میں گویا ہوا چودھری صاحب وہ فرقان (پوسٹ مین کا بیٹا) شہر پڑھنے کے لیے جانا چاہتا ہے آپ سے مشورہ درکار ہے کہ اس کے لیے کون سا شعبہ یا پیشہ درست رہے گا؟ چودھری صاحب جھٹ سے بولے دیکھ دیتیا اگر اپنے بیٹے کے لیے بہتر مستقبل چاہتا ہے تو اسے وکیل بنا دے دتہ گبھراۓ ہوۓ انداز میں بولا پر چودھری صاحب وکالت تو بڑا بدنام پیشہ بن گیا ہے چودھری صاحب بولے اوہ جھلیا جو بدنام ہوتا ہے اسی کا تو نام ہوتا ہے ہمارے سیاست دان تھوڑے بدنام ہیں پھر بھی ہمارے سروں پے مسلط ہیں اوہ وکیل بننے کے بڑے فائدے ہیں آپ کو بس بار کا لائسنس ملنے کی دیر ہے آپ کے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ لگ جاتا ہے لوگوں پر دھاک تو اسی مرحلے پر بیٹھنا شروع ہو جاتی ہے اگے سن دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ناکوں شاکوں پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا پولیس والے بھی وکیلوں سے الجھنے سے پرہیز ہی کرتے ہیں اور ویسے بھی ہم دیہاتیوں کو تو وکیلوں کی ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے اب پچھلے سال میں نے جو وہ نہر کے پاس والے چار ایکڑ خریدے تھے میری کچھ فٹ زمین ساتھ کے زمیندار کی طرف نکلتی تھی اس نے وہاں بنا مار رکھا تھا میں نے اس سے گزارش کی اس نے فوراً بنا ہٹا کر مجھے قبضہ دے دیا بھلا کیوں؟ اسے میرے وکیل بیٹوں کا علم تھا ورنہ اس طرح کے معاملات تو سالوں لٹکتے رہتے ہیں اور کوئ پرسانِ حال نہیں ہوتا اوہ وکالت ایک شاہی پیشہ ہے چور بھی وکیل پہ ہاتھ ڈالتے سو بار ضرور سوچتا ہے اب جلدی سے فرقان کو شہر کے کسی اچھے قانون کے ادارے میں داخل کرا دے۔۔ دتے پوسٹ مین کو شائد بات سمجھ آ چکی تھی اس نے خاموشی سے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا وہ چودھری صاحب کی باتوں سے کافی مطمئن نظر آرہا تھا میں نے اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور ایک گہرا کش لے کر سوچ میں پڑ گیا میں بھلا صحافت میں کیوں جھک مار رہا ہوں میں وکیل کیوں نا بن گیا میرے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔(حماد رضا)۔