تحریر: کشور ناہید۔۔
ستر کی دہائی میں کراچی سے مشرق اور اخبارِ خواتین کا اجرا ہوا۔ اخبارِ خواتین کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا ’’وہ رسالہ جسے مرد بھی پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ اس پرچے کی ادارتی ٹیم میں مسرت جبیں، انیس تفصل، ش فرخ اور شمیم اکرام الحق شامل تھیں۔ مشرق اور اخبارِ خواتین نے پڑھنے والوں کو پکڑ لیا۔ ہر شمارے میں ش فرخ کا کالم، سب کی توجہ کا مرکز ہوتا تھا۔ وہ اپنے کالم لکھنے والے دن شور بھی مچاتی تھی ’’مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے، میرے پاس کوئی نہ آئے۔‘‘ ہم سب اس کی وارننگ کو قہقہوں میں اڑا دیتے تھے۔ اخبارِ خواتین کا دفتر ادیبوں اور خاص کر خواتین کا مرکز بن گیا تھا۔ ضیاالحق کے مارشل لا میں بہت سے نمایاں صحافیوں اور ادیبوں کی تحریروں کے سنسر ہونے کا زمانہ آیا (ویسے وہی زمانہ آج کل بھی ہے) وہ پرچے جو خبریں دیتے تھے، وہ سب سرکاری ہینڈ آئوٹ سے بھرئ جانے لگے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ ویسے تو بہت سی لکھنے والیاں شادی کے بعد، اخبارِ خواتین کو چھوڑ چکی تھیں مگر ش فرخ، روزنامہ مشرق کی ایڈیٹر رہیں۔ جب اظہار کے راستے مسدود ہونے لگے تو مشرق کی ملکیت اور فروغ، اندھیروں میں ڈوب گیا۔
ش فرخ نے صحافتی فروغ کے لئے ایک ادارہ بنالیا۔ بہت لوگوں نے معاونت کی۔ مسائل کے بارے میں گائوں گائوں پڑھنے والوں کو بتاتی رہی۔ دوپہر یا شام کو پریس کلب میں لطیفے اور قہقہے برستے تھے۔ حسن عابدی، چھاپرا، مجاہد بریلوی، سلیم عاصمی اور فاضل جمیلی اپنی اپنی کیبنٹ کا تالہ کھولتے اور سب اپنی پیاس بجھاتے۔ جب ویف بن گئی تو اس کی سرگرم کارکن ش فرخ اور انیس ہارون ہوتی تھیں۔ ان کا شوق تھا کہ علی امام کی گیلری میں جو بھی پینٹنگ نمائش ہوگی، نمائش کے دن، اس شام کو علی امام کی خفیہ نشست ہوتی۔ ش فرخ، اس کا لازمی حصہ ہوتی۔ دن گزرتے گئے۔ اب ش فرخ کے پاس مصوروں پہ مضامین کی کتاب بن گئی۔ پھر علی امام صاحب پر الگ کتاب بنائی دنیا میں جہاں جہاں آوارہ گردی کی۔ کتاب بنالی۔
اب وہ زمانہ آیا کہ سرکار نے این جی اوز کو قید میں ڈال دیا۔ فنڈز دینے والے اداروں کو لگام ڈالی۔ پھر آزادی صحافت اور عوام سے تعلق اور شعور بیدار کرنے والے ادارے ڈنڈا ڈولی کرکے بے سروسامان کر دیے گئے۔ ش فرخ کو اب فہمیدہ ریاض کی طرح فیس بک سے عشق ہوگیا۔ دونوں مجھے طعنہ دیتیں تو پینڈوہے۔ فیس بک استعمال کیوں نہیں کرتی۔ میں جواب دیتی، مجھے لکھنے سے دلچسپی ہے فضولیات میری زندگی میں شامل نہیں۔
ش فرخ جب لاہور آتی تو بہت ساری چیزوں کی فہرست بناکر اور لکھ کر لاتی۔ مثلاً پرانی انار کلی سے فالودہ کھانا، گوالمنڈی سے گجریلا اور مچھلی کھانی۔ لکشمی چوک سے کٹاکٹ اور چکڑ چھولے کھانے۔ حاجی کی دکان سے صبح چھ بجے ہریسہ کھانا۔ سب کو کھاکر نشان لگاتی جاتی۔ اپنے خاندانی گھر میں اس وقت تک بار بار جاتی رہی، جب تک اماں زندہ تھیں۔ سارے بہن بھائیوں کو تعلیمی دوڑ میں شامل کرتی رہی۔ بہن بھی مرگئی اور بھائی برادرانِ یوسف بن گئے۔ بڑی بچت اور قلم کی محنت سے صحافی کالونی میں ایک گھر بناکر رہنے لگی۔ وہیں جب میں کراچی جاتی، ایک دفعہ بیمار بھی ہوئی۔ ش فرخ اس وقت میرے لئے مدر ٹریسا بن گئی۔ ہمارا ایک ایسا خاندان تھا، جس میں کسی کی نظر دولت یا غربت پر نہیں، صرف اور صرف محبت تھی۔
فیس بک کے استعمال نے اس کو بہت مسرت نہیں دی۔ بدن نے اس بیکاری کے زمانے میں بیماریوں کا گھر دیکھ لیا۔ ڈاکٹر ہارون اور انیس، اس کے مسیحا تھے مگر پھر دوست تھے۔ کوئی جسے اپنا کہیں، نہیں تھا مگر مسیحا نے اس کو دوستوں کی معیت میں قبر میں آباد کیا۔ عطیہ دائود خاص خدمت گار، اسے بار بار یاد کرتی ہے۔ اب میں ڈھونڈنے لگی۔ طلعت حسین کہاں ہیں۔ سولنگی کیا کررہا ہے، شمسی کیا کررہا ہے؟ ساتھ ہی منہاج برنا، نثار عثمانی اور ضمیر صاحب یاد آئے کہ انہوں نے تو ’’پریس زنجیروں میں‘‘ لکھا، شکر ہے مرگئے۔ ورنہ نامعلوم افراد کے ہاتھ سے مارے جاتے۔(بشکریہ جنگ)
۔۔۔ حسن عابدی، چھاپرا، مجاہد بریلوی، سلیم عاصمی اور فاضل جمیلی اپنی اپنی کیبنٹ کا تالہ کھولتے اور سب اپنی پیاس بجھاتے۔ “”
کیبنٹ کھول کر سب کس قسم کی پیاس بجھاتے تھے ؟؟؟ “” اٰیں ۔۔۔۔ بات سمجھ نہیں آئی۔۔ یا پھر وہی سمجھوں کہ جو اکثر نے سمجھا ہوگا ۔۔؟؟