تحریر: محمد علی میو
اب “وہ” ہر بڑے اور اہم شعبے میں لانگ ٹرم پالیسی اپنا رہے ہیں۔۔.سب سے پہلے میڈیا کو گڈریا بنا کر پوری عوام کو ایک ریوڑ کی شکل دیدی.میڈیا عوام کا مائی باپ بن گیا ۔۔جو میڈیا چاہتا ہوا بهی اسی رخ کی چل پڑتی تهی جو معاملہ میڈیا اٹهاتا وہی ملک کا اہم ترین اور نازک ترین مسئلہ بن جاتا .تقریبا 2 دہائی میڈیا کے ذریعے “ریفارم” لائی جاتی رہیں ۔۔کئی اینکر پرسنز کو مختلف “ٹاسک ” دیئے جاتے تهے .انکے پروگرامز میں مسائل کو “اجاگر” کیا جاتا تها .جب تک عوام “نابالغ ” تهے مائی باپ کی ہر بات پتهر پر لکیر سمجھ کر اس کو عمل پیرا ہوتے اور سچ مان کر اس کی تائید کرتے .پهر عوام بالغ اور خود مختار اولاد کی طرح اپنے ذہن سے سوچنے لگی اور مائی باپ یعنی میڈیا ہی کو لعن طعن کرنے لگی۔۔.اینکر پرسن صحافی کو لفافہ صحافی کہنے لگی .میڈیا کو جهوٹ اور فراڈ کہنے لگی .یہ سب صورتحال “وہ” مسلسل دیکھ رہے تهے.اسی دوران “انہوں” نے “عدل و انصاف” کے معاملات پر بهی توجہ دینا شروع کر دی .اور ملک کے سیاسی اور کاروباری طبقے کا “محاسبہ” شروع ہو گیا .کئی نا اہل ہوئے کئی قید کئی کو جرمانے ہوئے .”عدل و انصاف” کا عمل جاری ہے .لیکن دوسری جانب “انہیں ” میڈیا اب عضو مفلوج سا محسوس ہونے لگا.دیکها کہ میڈیا اور عدل و انصاف کے زریعے قوم کی “رہنمائی ” ہوچکی ہے تو میڈیا سے مقاصد تقریبا پورے ہوچکے ہیں .لہذا اس سفید ہاتهی سے بهی چهٹکارا ضروری ہے.بس اب پالیسی یہ ہے کہ بجائے درجنوں اینکر پرسن سے رابطہ رکها جائے کیوں نہ گنتی کے 5/7 بڑے چینلز کے مالکان سے ہی براہ راست “یاری” کر لی جائے.مالکان کو دوست بنا کر بتایا جائے کہ ان صحافیوں کو اپنی “اوقات” میں رکهو .موٹر سائیکلوں پر دفتر جانے والا اب کروڑوں کی گاڑی میں بیٹھ کر آفس جاتا ہے .جو صحافی 10/15 سال پہلے محلے کے پرچون والے کا ادهار وقت پر نہیں چکا سکتا تها وہ آج آپ مالکان سے لاکهوں تنخواہ لے کر مزے اڑا رہا ہے .ان بڑی کاروں والوں کو ایسا کر دو کہ یہ اب ادارے بدل نہ سکیں ۔۔کئی سال لاکهوں ہزاروں روپے تنخواہ لینے والوں کے پیسے کاٹو اور جتنے جی چاہے ان کو نکال دو .کوشس کرو یہ دوبارہ اپنے پرچون والوں سے ادهار کرنے پر مجبور ہو جائیں.اپنے بچوں کو اچهے اسکولوں سے نکال کر سرکاری سستے اداروں میں پڑهائیں.کوشس کرو جو صحافی کرایہ پر رہ رہے ہیں وہ اپنا پلاٹ نہ خرید سکیں جو پلاٹ خرید چکے ہیں وہ گهر نہ بنا سکیں .جو بیٹیوں کا جہیز جوڑ رہے ہیں وہ اچها سامان نہ دے سکیں .سیٹھ ان معمولی صحافیوں نے آپ کو بہت لوٹ لیا ہے اب ان کو “اوقات ” میں لاؤ۔۔”وہ” کہتے ہیں سیٹھ آپکی تو یونی ورسٹی بهی ہے .کیوں صحافی کو 50 ہزار لاکھ تنخواہ دے رہے ہو .اپنی یونی ورسٹی کا خیال کرو ۔۔وہاں پڑهنے وا لے بچے کو 10 ہزار پر اپنے چینل میں رکهو اور لاکھ والے صحافی سے چهٹکارا کرو .تمہاری یونی کی بهی بلے بلے ہوگی کہ اس ادارے میں پڑهنے والا فوری صحافی بن جاتا ہے .میری ذاتی پیش گوئی ہے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا کا حال پی ٹی وی جیسا ہوگا.جیسے سعودی عرب میں جمعے کے دن خطبہ حکومت کی جانب سے تحریر ملتا ہے اور ہر مسجد میں وہی پڑها جاتا ہے ایسے ہی “وہاں ” سے اسکرپٹ آیا کرے گا جو سب چینل پر چلا کریگا .نیوز روم میں ایک رن ڈاون پروڈیوسر ہوگا .ایک اسائنمنٹ ایڈیٹر ایک این ایل ای اور 3/4 مانٹرنگ والے .ایک ہی واٹس ایپ گروپ ہو گا جس پر تمام چینل پر خبر پہنچ جایا کریگی رپورٹر کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی.باقی کام 10/10 ہزار والے انٹرنی سنبهال لیں گے .کوالٹی ختم ہو جائیگی ۔۔لیکن سیٹھ کو کیا فرق پڑتا ہے چینل تو بس نام کیلئے کهولا ہے کمائی نہ بهی ہو تو سیٹھ کے دیگر بهی کئی کاروبار ہیں .ویسے چینل بهی خسارے میں نہیں کیوں کے باقی درجنوں کاروبار اسی وجہ سے تو منافع میں ہیں کیوں کہ سیٹھ کا اپنا چینل ہے۔۔(محمد علی میو)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کالم کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)