خصوصی رپورٹ)۔۔
لگ بھگ 20 سال قبل پاکستان کے شہر لاہور میں ایک ایسا واقعہ سامنے آیا جس نے دنیا بھر کو لرزا دیا۔ جاوید اقبال نامی ایک شخص نے دعوٰی کیا کہ اس نے سو بچوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں تیزاب میں ڈال کر ختم کر دی ہیں۔ذرائع ابلاغ میں جاوید اقبال کی لکھی ایک ڈائری سامنے آئی جس میں اس نے قتل کیے جانے والے بچوں کے نام اور پتے لکھے تھے اور یہ تفصیلات بتائی تھیں کہ کن حالات میں ان کو قتل کیا گیا۔یہ معاملہ ذرائع ابلاغ میں آنے کے بعد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا اور جلد ہی جاوید اقبال کو گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں مقدمہ چلا تو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی اس کو کوریج دی۔ جاوید اقبال کو سزائے موت سنائی گئی اور جج نے مجرم کو سو مرتبہ پھانسی پر لٹکانے کے احکامات جاری کیے۔لیکن اس سے پہلے کہ مجرم اس سزا کے خلاف اپیل کرتا یا اسے سزا دی جاتی، جاوید اقبال اور ان کے ایک ساتھی کی لاہور کی جیل میں پراسرار طور پر موت ہو گئی۔ پولیس نے دعوٰی کیا کہ دونوں نے خودکشی کر لی۔جاوید اقبال کی اس کہانی میں بہت سے ایسے پہلو تھے جن کے بارے میں سوالات اس وقت بھی تھے اور آج بھی قائم ہیں۔ جاوید اقبال کی زندگی اور اس واقعے پر فلمساز ابو علیحہ نے ایک فلم بنائی ہے جس کا نام ‘جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ سٹوری آف اے سیریل کلر’ ہے۔فلم میں اداکار یاسر حسین اور عائشہ عمر مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس فلم کو پنجاب اور سندھ میں سینسر بورڈز نے پاس کر دیا تھا جس کے بعد جمعے کے روز اس کی نمائش کی جانی تھی تاہم پنجاب حکومت نے آخری وقت میں ایک خط کے ذریعے اس کی نمائش کو روک دیا ہے۔
حکومتی اعلامیے کے مطابق فلم کے حوالے سے ‘متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں’ جس کے بعد اس کو روکا گیا ہے اور اس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ پنجاب کے ساتھ ہی سینٹرل سینسر بورڈ نے بھی فلم کی نمائش کو روک دیا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز کے چیئرمین گل زمان نے بتایا کہ فلم کا جائزہ لینے کے بعد اسے نمائش کے لیے پاس کر دیا تھا تاہم ‘فیڈرل بورڈ نے اس کو ریویو کر کے اس کی نمائش کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ کے احکامات پر اس کی نمائش کو روکا گیا ہے۔ گل زمان کے مطابق فلم کو دوبارہ ریویو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ فل ممبر ریویو ہو گا یعنی چار کے بجائے اب 16 ممبرز اس کا جائزہ لیں گے۔اس سوال کے جواب میں کہ فلم کے ریلیز ہونے سے قبل انھیں کس نوعیت کی شکایات موصول ہوئیں، بورڈ چیئرمین کا کہنا تھا ‘یہ شکایات مختلف نوعیت کی تھیں جن میں فلم میں استعمال کی جانے والی زبان اور لب و لہجہ بھی ایک ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر ابو علیحہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے حکومتِ پنجاب کی طرف سے فلم کی ریلیز کو روکنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ اقدام ’غیر قانونی‘ ہے کیونکہ ایک بار فلم ریلیز کے لیے سینسر بورڈ سے پاس ہو چکی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر سینسر بورڈ اس کو پاس نہ کرتا تو پھر طریقہ کار یہ تھا کہ اس کو دوبارہ فل ممبر بورڈ ریویو کرتا، اگر وہ بھی اس کو پاس نہ کرتا تو اس کے بعد عدالت میں اپیل کا ہمارا حق تھا۔ لیکن یہاں تو بورڈ نے فلم کو پاس کر دیا اور اس کے بعد عین وقت پر اس کی ریلیز کو روکنے کے احکامات جاری ہوئے۔ابو علیحہ کا کہنا تھا کہ انھیں یہ منطق بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ جب فلم ریلیز ہی نہیں ہوئی اور عوام نے دیکھی ہی نہیں تو اس کے حوالے سے ’شکایات‘ حکومت کو کیسے موصول ہو گئیں۔ ابو علیحہ کے مطابق یہ کہانی لاہور کی تھی اور صوبہ پنجاب ہی میں سب سے زیادہ سینما گھر موجود ہیں جہاں سے فلم منافع کما سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں فلم ریلیز ہونے تک انھوں نے باقی مقامات پر بھی فلم کی ریلیز کو مؤخر کر دیا ہے۔
فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار یاسر حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ سینسر بورڈ سے پاس کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے فلم کی ریلیز کو روک لینے کا اقدام سمجھ میں نہیں آیا۔اس کا مطلب ہے کہ ‘سینسر بورڈ میں نااہل لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جنھوں نے پہلے صحیح ریویو نہیں کیا۔یاسر حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ تو کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ‘ورنہ آپ کے سینما گھروں میں صرف کرکٹ اور ساس بہو کے ڈراموں کی پہلی اور آخری اقساط ہی دکھائی جائیں گی۔(خصوصی رپورٹ)۔۔