senior sahafi or tajzia kaar

سینئر صحافی اور تجزیہ کار۔۔؟؟

تحریر: عمار مسعود

نام تو جانے اُس کا کیا تھا لیکن سب اُسے دلبر جان کے نام سے پکارتے تھے۔ تعلیم سے تائب تھا، میٹرک بھی ایسے کیا جیسے کوئی پی ایچ ڈی کرتا ہے یعنی کئی برس لگا دیے۔ والدین بہت متفکر رہتے کہ کب ہونہار سپوت کچھ کما کر کھلائے گا لیکن دلبر جان کے کان پر جوں تک نہ رینگتی تھی۔ وہ اپنے موبائل میں غرق ہر وقت وہی کام کر تا رہتا تھا جو اس عمر کے لڑکے اکثر کرتے ہیں۔ ماں بارہا روہانسی ہو کر کہتی: ’’اِس منحوس موبائل سے نکلو تو کوئی کام بھی کرو‘‘ مگر دلبر جان نصیحتوں سے ماورا تھا۔ انہوں نے اس امید پر شادی بھی کروا دی کہ بچہ سدھر جائے مگر لاحاصل۔ وہ پیسے بھی ماں کی صندوقچی سے چراتا، گلے میں سرخ رومال ڈالتا اور اوباش نوجوانوں کی طرح گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر محلے کی خواتین پر نظر آزمائی کرتا۔ دلبر جان میں یوں تو بہت خامیاں تھیں مگر سب سے بڑی خامی تھی گالی دینا۔ وہ بات بات پر گالی نکالتا، سوائے اپنی ماں کے کوئی اس کی گالیوں کی زد سے نہیں بچا تھا۔ جب حالات کی بہت کڑکی ہو گئی تو دلبر جان نے ایک مذہبی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ شمولیت سے دلبر نے مذہب کی الف ب تو نہیں سیکھی البتہ بحث کرنا خوب سیکھ گیا تھا۔ اس کی ہر بحث کی تان ہمیشہ گالی پر ٹوٹتی۔ اسی وجہ سے وہ مذہبی جماعت سے دھتکار کر نکالا گیا۔ دلبر کی ملاقات ایک دوست سے ہوئی جس نے اس کو نوکری دلانے کا وعدہ کیا اور کہا ’’انٹرویو کے لئے تیار رہنا‘‘۔ وہ دل میں قسمت کو کوستا انٹرویو کے لئے چل پڑا۔ انٹرویو ایک بہت بڑے افسر کے سامنے ہوا۔ (ہم اس مضمون میں خوفِ فسادِ خلق سے اس افسر کو ’’استاد‘‘ کہہ کر پکاریں گے)۔ استاد نے جب دلبر جان سے تعلیمی قابلیت پوچھی تو جواب ندارد۔ استاد نے چند ایک اور سوال کیے جن سے دلبر زچ ہو گیا اور اچانک اس کی زبان سے ایک غلیظ گالی نکل گئی۔ استاد اس بات پر برہم ہونے کے بجائے بہت خوش ہوا۔ گالی کی گیرائی کو دیکھتے ہوئے اس نے دلبر جان کو نوکری دینے کا سندیسہ سنا دیا۔ دلبر حیران رہ گیا۔ جب دلبر پہلی دفعہ اپنے دفتر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ میزوں پر نقشے بچھے ہوئے ہیں گویا دشمن ملک پر حملہ کرنے کا پلان ہو۔ جب غورکیا تو وہ دشمن کے علاقوں کے نقشےنہیں اپنے ملک کے سیاستدانوں، صحافیوں کے ٹوئٹر ہینڈل، فیس بک آئی ڈیز اور یو ٹیوب چینلز کے لنک تھے۔ استاد نے اس کو بتایا ’’تمہارا کام ان لوگوں کو گالیاں دینا ہے، گندی اور غلیظ۔ اسی سے تمہارا رزق وابستہ ہے اور یہ معاملہ ٹاپ سیکرٹ ہے‘‘۔

استاد نے دلبر کے ہنر کا امتحان لینے کے لئے جب پوچھا: ’’اگر کوئی تمہاری گالی کے جواب میں دلیل سے بات کرے تو تم کیا کرو گے؟‘‘ دلبر نے جواب دیا ’’پھر میں اسے اور گالیاں دوں گا‘‘۔ اس بات سے استاد بہت خوش ہوا اور اس کو خوب داد دی۔ دلبر کے حالات بدل گئے۔ وہ اب دن بھر سوشل میڈیا پر اپنا محبوب کام کرنے لگا۔ اس نے راولپنڈی کے گنجان علاقے مری روڈ پر اپنا دفتر کھول لیا، چند ملازم رکھ لئے اور دفتر کے باہر جلی حروف سے ’’سینئر صحافی اور تجزیہ کار‘‘ لکھوا دیا۔

دلبر اپنے کام میں جلد ہی طاق ہو گیا۔ اس کے ہر ملازم نے دو، دو سو آئی ڈیز بنا لیں۔ ان کے فالورز بہت کم ہوتے۔ ان کو ایک اکاؤنٹ سے گالی دے کر اگلے اکاؤنٹ کی جانب بڑھ جانا تھا۔ سب فیک اکاؤنٹس پرکہیں فورسز کی ولولہ انگیر تصاویر لگائیں، کسی پر کلمہ لکھا، کسی پر وزیراعظم کی تصویر نقش کی اور کسی پر آیاتِ قرانی تحریر کر دیں۔ ان مبارک نقوش کے نیچے گالم گلوچ کا کاروبار بہت سہولت سے ترقی پاتا رہا۔ دلبر نے اس طرح فیک فالورز کی ایک طویل فہرست بنا لی۔ وہ لوگوں کو یوٹیوب کے چینل بنا کران کو اپنے فالورز سے ’’مونوٹائز‘‘ بھی کروا کے دیتا۔ ان چینل کے مالکان عموما سرکاری ترجمان یا زہریلے تجزیہ کار ہوتے جو دلبر کی مدد سے لمحوں میں ٹوئٹر کو غلاظت کا ڈھیر بنانے میں کامیاب ہو جاتے۔ یہ کاروبار اتنا قانونی نہیں تھا کیوں کہ اگر یوٹیوب اور ٹوئیٹر انتظامیہ کو اس کی خبر ہو جاتی تو اس کو بین کر دیتے لیکن دلبر اپنے استاد کی شہ پر بڑی دلیری سے یہ کام کرتا، جب کوئی اعتراض کرتا تو اس کو ’’تڑی‘‘ لگاتا کہ جس نے میری ایف آئی اے یا سائبر کرائم برانچ میں شکایت کرنی ہے وہ بھلے کر دے ۔ دلبر جانتا تھا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

اوپر سے حکم آتا کہ کس کے خلاف کتنا غلیظ ٹرینڈ چلانا ہے۔ کس صحافی کو ماں بہن کی گالی دینی ہے، کس کےمرے ہوئے عزیزوں پر دشنام کی بارش کرنی ہے، کس سیاسی شخصیت کو بدنام کرنا ہے، کس مردے کی قبر خراب کرنی ہے، کس کی شبینہ داستانیں طشت از بام کرنی ہیں۔ گالی کی کثافت بڑھتی تو دلبر کے انعام و اکرام میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا۔ دلبر کا کاروبار بڑھنے کے باوجود اس کی نجی شبینہ مصروفیات وہی رہیں۔ گھر میں بیوی اور ماں پائی پائی کو ترستے رہے مگر دلبر کی رات گئے کی غیرنصابی سرگرمیوں پر زیادہ تر کمائی صرف ہو جاتی۔ ماں تو اس کے لچھن سے واقف تھی، روز اس سے پوچھتی ’’بیٹا یہ پیسے تمہارے پاس کہاں سے آتے ہیں ، کہاں جاتے ہیں، کاروبار کیا ہے تمہارا؟‘‘ دلبر اس کے سوالوں کو ان سنی کر دیتا۔ ماں نے ایک دن اصرار کیا ’’بیٹا تم کرتے کیا ہو آخر، کچھ پتا تو چلے؟‘‘ دلبر جان پہلے تو چپ رہا اور پھر سچ بول ہی دیا ’’ماں میں دوسروں کی ماؤں کو گالیاں دیتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر دلبر تو اپنی نئی گاڑی کی چابی گھماتے گھر سے نکل گیا لیکن ماں نے آنسوئوں سے بھرا چہرہ اپنی چادر میں چھپا لیا۔

نوٹ:یہ کہانی فرضی ہے،کسی کردار سے مماثلت کا دوش سماج پر ہو گا۔ ہاں البتہ اس کالم کے کمنٹس میں آپ خود ان گالیاں دینے والے اکاؤنٹس کے فالورز کی تعداد کا جائزہ لے کر اس پر حقیقت کا گمان بھی کر سکتے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں