تحریر: عمران ملک
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے صحت، خزانہ، میڈیا کے مشیران اور این ڈی ایم اے کیساتھ سینیئر صحافیوں کو ایک میڈیا بریفنگ دی، بلاشبہ وہاں پر موجودہ صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی، لیکن میڈیا سرکلز میں ایک بات گردش کرتی رہی کے یہ “سینیئر صحافی’ کون ہوتے ہیں؟ اسکی کیا تعریف ہے؟ کون یہ فیصلہ کرتا ہے کے کون سینیئر صحافی ہے؟ کیا سینیئر صحافی کا مطلب تجربہ کار اور عمر رسیدہ صحافی ہونا ہے؟ تو پھر ہمیں ناں تو مجیب الرحمن شامی نظر آئے اور ناں ہی نذیر لغاری، ناں ہی ایاز امیر نظر آئے ناں ہی سہیل وڑائچ-ہاں اگر سینیئر صحافی کا مطلب منجھے ہوئے صحافی ہونا ہے جو نپے تلے سوالات کرنیکی جسارت رکھتا ہو تو پھر ہمیں ناں تو محمد مالک نظر آئے، ناں ہی روف کلاسرا یا عامر متین، ناں ہی حامد میر نظر آئے اور ناں ہی ڈاکٹر شاہد مسعود، ناں ہی قاضی سعید نظر آئے ناں ہی ندیم ملک، ناں ہی کہیں ارشد شریف تھے ناں ہی کہیں کامران خان
ہاں اگر میری ناقص عقل کے مطابق سینیئر صحافی وہ ہوتا ہے جو آپ کو زیادہ ٹف ٹائم ناں دے تو پھر جو سینیئر صحافی آپ نے بلائے وہ آپکے صحافتی عدل کے معیار پر پورا اترتے ہیں، آپ کا فیصلہ درست اور ہم کون ہوتے ہیں اس پر تنقید کرنیوالے
بعض لوگوں کا کہنا تھا کے یہ پریسر ایمرجنسی میں بلایا گیا اور اسلام آباد میں موجود صحافیوں کو فوقیت دی گئی، اس فوقیت کی وضاحت کون کریگا؟ مبشر لقمان تو لاھور سے آئے تھے، محمد مالک، روف اور عامر متین تو اسلام آباد میں ہوتے ہیں، پھر ٹیلی پرامپٹر سے اینکرنگ کا آغاز کرنیوالی محترم اینکر کو آپ نے نسیم زہرہ، فریحہ ادریس اور عاصمہ شیرازی پر فوقیت دیدی
دوسرا اس پریسر کیلیے بیٹ رپورٹرز یا چینلز کے بیورو چیفس کو بلا لیتے تو عوام کو اپنی مرضی کے جوابات بھی مل جاتے، وزیر اعظم کے نئے فوکل پرسن فہد ہارون سے گزارش ہے کے جتنا وہ تنقیدی میڈیا کو وزیراعظم کے پریسر میں بلائیں گے اتنا ہی وزیراعظم کا بہتر تاثر عوام اور میڈیا میں ابھرے گا
فہد ہارون ہمارے سابقہ کولیگ رہے ہیں، وہ میڈیا انڈسٹری کو بڑے قریب سے جانتے ہیں، ہمیں امید ہے کے وہ وزیر اعظم کے فوکل پرسن کے طور پر اصلاحات لائینگے، میرٹ کو یقینی بنائیں گے، اور میڈیا کو ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ہینڈل نہیں کرینگے(بشکریہ میڈیا بائٹس)۔۔