کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام منگل کو سینئر صحافی امام بخش المعروف زلف پیرزادو مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔،جس سے کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی ،سیکرٹری شعیب احمد ،نائب صدر عبدالرشید میمن ،سینئر صحافی اور دانشور ڈاکٹرعبدالجبار خٹک ،پروفیسر توصیف احمد خان ،مظہرعباس ،سابق صدر امتیاز خان فاران،ارشاد کھوکھر ،عبداللہ سروہی ،بیرسٹر ضمیر گھمرو ،مہیش کمار ،ابو الحسن ،الطاف پیرزادہ ،ڈاکٹر بخش علی ،عنایت پیرزادو ،سہیل سانگی سمیت مرحوم کی صاحبزادی ورثا پیرزادو نے بھی خطاب کیا ۔مقررین نے کہا کہ زلف پیرزادو صحافت کا ایک معتبر نام ہے۔انہوںنے ساری زندگی حق و صداقت کا علم بلند رکھا اور کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔انہوںنے کہا کہ نئے آنے والے صحافیوں کے لیے ان کی زندگی مشعل راہ ہے ۔ زلف پیرزادو کی شعبہ صحافت کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔وہ ایک ہمدرد اور مخلص انسان تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ کسی کے دباؤ میں نہ آنے والی شخصیت تھے اور دور آمریت میں بھی انہوںنے قلم کے ذریعہ اپنے جہاد جاری رکھا ۔سینئر مظہر عباس نے کہا کہ طالب علمی کے زمانے میں میرا کئی تنظیموں سے تعلق رہا ۔جب میں صحافت میں آیا تو میرا تعلق زلف پیرزادو سے ہوگیا۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو اپنی فیملی اور معاشرے میں بانٹا۔ان کی صحافتی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ان کی سوچ پر مزید کام کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہا کہ 1983کے بعد سندھی صحافت نے نشو و نما حاصل کی ۔وہایک کمیٹڈ انسان اور پروگریسو نظریہ کے مالک تھے جبکہ آج کل صحافی اس سے دور ہورہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کل پیسہ نظریہ پر غالب ہوچکا ہے۔اس موقع پر دیگر مقررین نے کہا کہ کراچی پریس کلب اور زلف پیر زادو کے ساتھیوں کے شکر گزار ہیں کہ وہ بعد از مرگ بھی ان کی فیملی کے ساتھ ہے۔ہم سے ہمارا یار بچھڑ گیا ہے۔ وہ صرف صحافی نہیں بلکہ ادیب ،شاعراور سیاست پر بھی عبور رکھتے تھے۔انکی یادیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں مگر ان کی یادیں نہیں بھلائی جاسکتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ زلف پیرزادو ایک واضح سوچ کے مالک تھے۔انسان کو لالچ کمزور کرتی ہے لیکن ان میں رتی برابر بھی لالچ نہیں تھا ۔وہ سیاسی قیدی بنے اور وہیں سے انہوںنے میٹرک کیا ۔ایک ملن سار پیار کرنے والی شخصیت تھے ۔وہ صرف سوسائٹی میں پروگریسو نہیں بلکہ اپنے گھریلو زندگی میں بھی پروگریسو تھے۔مقررین نے کہا کہ یقین نہیں آتا کہ زلف پیرزادہ ہم میں نہیں رہے۔وہ زندہ ہیں اور یہیں بیٹھ ہمیں کہی سن رہے ہوںگے۔وہ آخری سانسوں تک اپنے شعبے سے منسلک رہے۔مقررین نے کہا کہ زلف پیرزادوسیاسی امور پر عبور رکھتے تھے۔وہ صرف اپنے کام سے کام رکھنے والی شخصیت تھے۔انہوں نے بے شمار صحافی پیدا کئے۔ سیاست سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کے نیوز سینس کمال کی تھی۔ہم نے ایک عظیم سرمایہ کھویا ہے۔ وہ ایک انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ان کی تربیت ہی ایسی ہوئی تھی ۔ وہ ایک باضرف خودمختار اور ایماندار صحافی اور سیاسی ورکر تھے۔ وہ خواتین کو تعلیم کے قائل تھے اور وہ چاہتے تھے کہ خواتین کو تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں ۔انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی شعور رکھنے والی شخصیت ہم میں نہیں رہی۔انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا۔ ان کے مزاج میں ٹھہراؤ تھا۔ وہ ایک مزاحمتی صحافی تھے۔ ان کے غم کو نہیں بھلایا جاسکتا ہے۔