اسلام آباد کی ایک عدالت نے متنازع پیکا قانون کے تحت گرفتار ہونے والے نجی ٹی وی چینل اے بی این کے اسلام آباد بیوروچیف اور سینئر صحافی خالد جمیل کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔خالد جمیل کو گذشتہ روز میڈیا ٹاؤن اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔جمعہ کی صبح انھیں مقامی عدالت کے جج شبیر بھٹی کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے ایف آئی اے نے اُن کے دس روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور مؤقف اختیار کیا کہ انھیں ملزم سے الیکٹرانک آلات برآمد کرنے ہیں جبکہ تفتیش کی غرض سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی بھی درکار ہے۔خالد جمیل کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا نے ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور یہ کہ صحافی کے خلاف مقدمہ کو خارج کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج نے فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ ہی دیر بعد سنا دیا گیا۔یاد رہے کہ صحافی خالد جمیل پر ہونے والی ایف آئی آر میں سوشل میڈیا سے متعلق بنائے جانے والے قانون، پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ یعنی ’پیکا 2016‘ کی ترمیم شدہ دفعہ 20 بھی شامل ہے جو سوشل میڈیا پر غلط اور فیک خبروں کو پھیلانے سے متعلق ہے۔ یہ ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے جس پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 بھی شامل ہے جو ’عوام میں اضطراب یا فساد بھڑکانے‘ سے متعلق ہے۔اسلام آباد میں مختلف صحافتی تنظیموں کی جانب سے صحافی خالد جمیل کی گرفتاری پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ کے روز احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی۔ ایف آر میں کیا الزامات عائد کیے گئے ہے؟ایف آئی آر میں ایف آئی اے سائبر کرائم کا کہنا ہے کہ محمد خالد جمیل کےسوشل میڈیا اکاؤنٹ ’ایکس‘ سے انتہائی دھمکی آمیز مواد اور ٹویٹس شیئر اور مشتہر کی گئیں۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ’ملزم نے جان بوجھ کر غلط اور بےبنیاد معلومات شیئر کرکے ریاست مخالف بیانیے کی غلط تشریح کی اور اسے پھیلایا، جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلنے کا بھی امکان ہے اور کسی کو بھی ریاست یا ریاستی ادارے یا عوامی امن کےخلاف جرم کرنے کے لیے اکسایا جا سکتا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ’سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے الزام تراشی کر کے عام لوگوں اور ریاستی اداروں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم نے دھمکی آمیز مواد جس میں ٹویٹس اور ویڈیوز شامل ہیں کے ذریعے عوام کو عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی اور اس مواد کو ریاست کے ستونوں کے درمیان بغض کا احساس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
سینئر صحافی کا ایف آئی اے کو 2 روزہ ریمانڈ۔۔
Facebook Comments