اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا سینئر صحافی ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا کر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا۔ گزشتہ تیس سے پینتیس سال سے صحافت کرنے والا ہریس کمار سامی بیماری، بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر بھیک مانگنے لگا، لیکن افسوس کسی صحافی تنظیم نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ ہریش کمار سامی حیدرآباد سے ایک عرصہ تک صحافت کرتا اور روزنامہ کاوش، تعمیر سندھ، ہلچل، خبروں، مہران ٹی وی وغیرہ سے بھی منسلک رہا۔ دو سال پہلے ہریش کمار کو شوگراور پھیپھڑوں کی تکلیف ایسی بڑھی کہ صحافتی ذمے داری ادا کرنا مشکل ہوگیا۔ جو جمع پونجی تھی علاج معالجے پر لگ گئی، بیماریوں نے کام کے قابل نہ چھوڑا تو گھر بیٹھنا پڑگیا،بروقت علاج نہ ہونے کی بنا پر ہریش کمار کا اب جگر مکمل طور پر خراب ہوچکا ہے جبکہ گردوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ کمزوری اور لاغر اس قدر ہوئے کہ کسی کام کی سکت نہ رہی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے ہریش کمار کی بیماریوں سے تنگ آکر پہلے ہی ان کے لیے اپنے یہاں ملازمت کے دروازے بند کرلیے۔ نوبت فاقوں تک پہنچی تو ہریش کمار حیدرآباد کے مختلف مقامات پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے پائے گئے کیوں کہ آٹھ بچوں کا پیٹ پالنا اس مہنگائی کے دور میں انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔مالی پریشانیوں نے ہریش کمار کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے ۔ صحافتی تنظیموں نے بھی ہریش کمار کے لیے کوئی خاطرخواہ سہارہ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جبھی علاج کے بھاری اخراجات سے تنگ آکر گزشتہ 2 ماہ سے گھر پر ہی قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہریش کمار ان دنوں آبائی گاؤں ٹنڈوالہ یار میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ ہریش کمار سامی کے مطابق ان کے 8 بچے انتہائی کم سن اور چھوٹے ہیں۔ ان میں 4 تو لڑکیاں ہیں جبکہ سب سے بڑا لڑکا کم عمر ہونے کے باوجود سلائی مشین کا کام کرتا ہے۔ شریک سفر کی بھی طبعیت عموماًخراب ہی رہتی ہے۔ سندھ حکومت کو بھی اس معاملے کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

سینئر صحافی بھیک مانگنے پر مجبور۔۔
Facebook Comments