روزنامہ امن اخبار کے مدیر اعلی اجمل دہلوی کو محمد شاہ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ان کی نماز جنازہ جمعہ کو بعد نماز عصر مسجد رحمن ناظم آباد میں ادا کی گئی ۔نماز جنازہ میں مرحوم کے اہلخانہ ۔عزیز واقارب ۔ایم کیوایم پاکستان کے رہنماء امین الحق ۔رابطہ کمیٹی کے ارکان ۔فنکشنل لیگ کے رہنمائوں ۔پی ایم یوجے کے رہنماء حسن عباس ۔سینئر صحافی منیر الدین ۔وزیر بلدیات کے ترجمان زبیر میمن ۔سینئر صحافیوں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عمائدین شہر نے شرکت کی۔ اجمل دہلوی جمعہ کو طویل علالت کے باعث انتقال کرگئے تھے۔ان کا شمار اردو اخبارات کے سینئر ترین مدیر اعلی میں ہوتا تھا۔ وہ جمعہ خان کے نام سے امن میں کالم لکھتے تھے۔جو اپنے وقت کا مشہور ترین کالم رہا۔اجمل دہلوی نے14اگست1936ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ وہ آٹھویں جماعت میں تھے۔اس وقت اپنے دادا کے ساتھ پاکستان آئے۔انہوں نے اسکول کے زمانے میں بچوں کے رسالے ’’کلیم‘‘ میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ان کی تحریر سے متاثر ہو کر مدیر نے انہیں بلایا یوں وہ روزانہ دو گھنٹے ’کلیم‘ میں کہانیوں کی نوک پلک سنوارنے لگے۔ وہ اس وقت میٹرک میں تھے۔انہوں نے انجام اخبار میں بھی بچوں کی کہانیاں لکھیں۔ انہوں نےسٹی کالج سے گریجویشن کیا۔ 1956ء میں پہلی ملازمت ’مسلمان‘ اخبار میں کی، پھر شام کے اخبار ’نوروز‘ سے جڑے۔اس کے بعد ’انجام‘ میں ’سب ایڈیٹر‘ رہے، پھر ’جنگ‘ آگئے، جہاں 1972ء میں ہڑتال کی بنا پر برطرفیاں ہوئیں، تو اُن میں ابراہیم جلیس کے علاوہ اجمل دہلوی ودیگر بھی شامل تھے۔ ملازمت سے برخاستگی کے بعد کچھ وقت ’جسارت‘ کی نذر کیا۔ پھر تمام برطرف ملازمین نے ’امن‘ اخبار نکالا، تو اجمل دہلوی ’نیوز ایڈیٹر‘ بنے اور افضل صدیقی مدیر، جن کے انتقال کے بعد اجمل دہلوی نے ان کی جگہ لی۔اجمل دہلوی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’امن‘ کبھی کسی جماعت کا ترجمان نہیں رہا، جو بھی زیر عتاب آیا، ہم نے اس کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی کے مشکل وقت میں ہم نے انہیں بھی جگہ دی، بے نظیر جب قائم علی شاہ کے ساتھ دفتر آئیں، تو انہوں نے اس کا اعتراف کیا۔ کہتے ہیں ’’جتنا وقت میں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ گزارا ہے، اردو کے کسی صحافی نے نہیں گزارا۔ بے نظیر اور آصف زرداری سے مجھ سے زیادہ اردو کا کوئی صحافی قریب نہیں رہا۔ ان کی شادی میں شریک ہونے والا اردو کا واحد صحافی تھا۔ اس کے بعد بھی ان کے گھر بہت زیادہ آنا جانا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ لوگوں سے زیادہ راہ و رسم نہیں ہیں۔اجمل دہلوی 1960ء میں دلی میں خالہ زاد کے ہم راہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ ان کا ایک بیٹااور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادے سہیل اجمل انتقال کرچکے ہیں۔ ان کی لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں تھی۔ سیاست میں پہلے بے نظیر اور پھر الطاف حسین کے نزدیک رہے۔ بلا ناغہ دوپہر دو بجے تا رات دو بجے دفتر میں ہوتے تھے۔ صرف اخبار کی تعطیل پر ہی چھٹی کرتے ہیں۔ اس دوران بھی اداریہ یا کالم لکھنے پر توجہ رہتی تھی۔پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان معاہدہ کراچی کرانے بھی اجمل دہلوی کا بہت اہم کردار رہا۔وہ ایم کیوایم کی جانب سے سینیٹر بھی بنے۔وہ سخت اصول پسند انسان تھے۔ان کی خوراک بہت سادہ تھی۔وہ اخبار بنانے میں تمام شعبوں کا کام جانتے تھے۔وہ سرکاری ونجی تقریبات میں نہیں جاتے تھے۔انہوں نے ہمیشہ حق و سچ کے لیے اپنی بات کالم کی شکل میں لکھی ۔ان کے انتقال سے صحافت میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کھبی پر نہیں ہوسکتا۔وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک امن سے منسلک رہے۔ان کے سیکنڑوں شاگرد ہیں۔وہ جو بات کہہ دیتے تھے وہ لفظ آخر ہوتا تھا وہ اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتے تھے۔