crime free city 2

سینئر کالم نگار اور صحافی کی آپ بیتی۔۔۔پارٹ ٹو۔۔

تحریر: جاوید چودھری

میں رات سوا گیارہ بجے فارغ ہوتا ہوں اور پونے بارہ بجے جم پہنچ جاتا ہوں‘ رات ایک بجے تک ایکسرسائز کرتا ہوں‘ تین ساڑھے تین بجے سوتا ہوں اور اگلے دن دس سے گیارہ بجے کے درمیان کام شروع کر دیتا ہوں اور پھر رات تین ساڑھے تین بجے تک ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کام کی طرف دوڑتا رہتا ہوں‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت اچھا ٹرینر دے رکھا ہے‘ ہم لوگ اسے پہلوان کہتے ہیں‘ یہ کشمیری ہے‘ برطانیہ میں پیدا ہوا‘ انگریزوں کے درمیان پلا بڑھا‘ تعلیم حاصل کی‘ جسم بنایا اور پھر اچانک برطانیہ چھوڑ کر پاکستان آ گیا۔

یہ صرف دو زبانیں بول سکتا ہے‘ پنجابی اور انگریزی‘ اردو اسے بمشکل سمجھ آتی ہے‘ میں تین برسوں سے اس کا شاگرد ہوں‘ اس نے مجھے چھیل چھال کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا‘ لوگ مجھے کہتے ہیں آپ بہت کم زور ہو گئے ہیں لیکن اللہ‘ میں اور پہلوان جانتا ہے ہم نے اس ’’کم زوری‘‘ کے لیے کتنی محنت کی‘ فالتو چربی‘ سستی اور غلط عادتوں سے جان چھڑانا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے‘ میں پہلوان کی نگرانی میں ایکسرسائز شروع کرتا ہوں تو ماشاء اللہ میرے نوجوان اور سپر فٹ بیٹے بھی میرا مقابلہ نہیں کر پاتے‘ یہ بھی لیٹ جاتے ہیں‘ پہلوان قہقہے لگاتا ہے۔

ہم دنیا سے کب چلے جائیں یا ہم کس وقت کس امتحان کا شکار ہو جائیں ہم نہیں جانتے مگر کم از کم جب تک ہم اپنے پائوں پر کھڑے رہ سکتے ہیں‘ ہم جب تک سانس لے سکتے ہیں ہمیں اس وقت تک اپنے آپ کو فٹ رکھنا چاہیے‘ ہم اگر صحت مند ہیں تو سب کچھ ہے‘ ہم اگر بیمار یا لاغر ہو گئے ہیں تو پھر کچھ بھی نہیں ہیں‘ دنیا آپ کو بوجھ کے سوا کچھ نہیں سمجھے گی‘ میں کوشش کر رہا ہوں میں دنیا کی بھاگ دوڑ میں ایکسر سائز کو ساتھ رکھوں‘ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے میں اب تک یہ کوشش نبھا رہا ہوں۔

میرے پچھلے دنوں دو دل چسپ مکالمے ہوئے‘ پہلا مکالمہ پہلوان کے ایک سوال سے شروع ہوا‘ پہلوان نے میرے بڑے بیٹے کا نام لے کر کہا ’’وہ جم چھوڑ گیا ہے‘ آپ اسے لے کر کیوں نہیں آتے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’وہ ضرور آئے گا‘‘ پہلوان نے اس یقین کی وجہ پوچھی‘ میں نے عرض کیا ’’میرے بچے جب دو تین سال کے تھے تو میں ایک دن اپنے ایک بزرگ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا‘ میں اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔

بزرگ نے پوچھا ’’تم بچوں کو کیا دیکھنا چاہتے ہو‘‘ میں نے عرض کیا ’’ میرے بچے عاجز‘ مہذب‘ خدمت گزار‘ محنتی اور ڈسپلنڈ بن جائیں اور بس‘‘ بزرگ نے ہنس کر کہا ’’تم اپنے بچوں کو جیسا دیکھناچاہتے ہو تم ویسے بن جائو‘ تمہارے بچے ویسے ہو جائیں گے‘‘ یہ بات سیدھی میرے دل کو لگی چناں چہ میں نے اسی دن عاجزی‘ تہذیب‘ خدمت گزاری‘ محنت اور ڈسپلن کی پریکٹس شروع کر دی‘ میرے بچے جوں جوں بڑے ہوتے گئے میں اپنی زندگی سے تکبر‘ غرور اور اکڑ نکالتا چلا گیا‘ میں تہذیب‘ آداب اورشائستگی سیکھتا گیا۔

میں نے مہمان نوازی اور خدمت گزاری کو بھی اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیا‘ یہ عادت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی پختہ ہو گئی کہ ہم لوگ اپنے گھر میں اپنے ہر مہمان کے سامنے خود پلیٹیں‘ چمچ اور کانٹے رکھتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چائے‘ کافی اور پانی سرو کرتے ہیں‘ ہم اپنے کسی معاون کو کسی مہمان کے سامنے برتن نہیں رکھنے دیتے‘ خود رکھتے ہیں‘ اس دوران ان تھک محنت‘ کام کرنا اور اپنی ٹیم سے کام لینا یہ بھی میرا ٹریڈ مارک بن گیا اور میں نے اپنی زندگی کو خوف ناک ڈسپلن میں باندھ دیا‘ میں نے پہلوان کو بتایا۔

آپ حیران ہوں گے مجھے پسینہ‘ پیشاب اور خواب بھی مقررہ وقت پر آتے ہیں اور بھوک بھی ٹائم پر لگتی ہے‘ پہلوان نے قہقہہ لگایا اور پوچھا ’’آپ نے یہ کیوں کیا‘‘ میں نے عرض کیا ’’اپنے بچوں کے لیے‘ ہم انسانوں کی نفسیات ہے ہم سن کر نہیں دیکھ کر سیکھتے ہیں‘ ہم والدین اپنے بچوں کی پہلی درس گاہ ہوتے ہیں‘ ہم پوری زندگی خود وقت کی پابندی نہیں کرتے‘ جھوٹ بولتے ہیں‘ سارا سارا دن بستر پر پڑے رہتے ہیں‘ لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اور متکبر لہجے میں بات کرتے ہیں لیکن توقع کرتے ہیں ہمارے بچے ہم سے مختلف ہوں! یہ کیسے ممکن ہے؟

بچے تو وہی کریں گے جو یہ پوری زندگی دیکھتے رہے‘ ہم انسان اپنی ماں کی طرح مسکراتے ہیں اور باپ کی طرح ری ایکٹ اور بی ہیو کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم اپنی ماں سے مسکرانا اور باپ سے بی ہیو کرنا سیکھتے ہیں‘ آپ کسی مسکرانے اور قہقہہ لگانے والے شخص کی والدہ سے مل لیں‘ آپ کو وہ قہقہہ لگاتی اور مسکراتی ملے گی اور آپ کسی بدتہذیب‘ متکبر اور اکھڑ شخص کے والد سے ملاقات کر لیں وہ اکھڑ‘ متکبر اور بدتہذیب نکلے گا اور آپ کو اگر وہ اپنے بیٹے سے مختلف ملے تو دو وجوہات ہوں گی‘ بیٹے کی پرورش باپ کی بجائے کسی دوسرے رشتے دار نے کی ہو گی یا پھر باپ دوہری شخصیت کا مالک ہو گا‘ وہ لوگوں کے سامنے مختلف اور گھر پر مختلف ہو گا۔

مجھے یہ بات 22 سال قبل میرے بزرگ نے سمجھائی اور میں اپنے بچوں کو جیسا دیکھنا چاہتا تھا میں اور میری بیوی ہم خود ویسے ہو گئے چناں چہ ہمارے بچے ہمیں دیکھ دیکھ کر ویسے ہوتے چلے گئے جیسا ہم انھیں دیکھنا چاہتے تھے‘ یہ سولہ سال کی عمر میں پریکٹیکل لائف میں آگئے‘ یہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا کام کرتے چلے گئے اور یوں یہ ڈگریوں سے پہلے معاشی طور پر خود مختار ہو گئے‘ یہ آج ماشاء اللہ اپنے دفتر بھی چلا رہے ہیں اور خوش حال بھی ہیں‘‘۔

میں نے پہلوان سے عرض کیا‘ میں ماشاء اللہ 22 سال سے ایکسرسائز کر رہا ہوں‘ میرے بچوں نے مجھے آندھی‘ طوفان‘ سردی‘ گرمی اور زلزلوں میں بھی واک‘ جاگنگ یا پھر ایکسرسائز کرتے دیکھا چناں چہ یہ بھی ایکسرسائز کی طرف مائل ہیں‘ یہ زیادہ دنوں تک جم سے دور نہیں رہ سکیں گے‘ پہلوان نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’یہ اچھی تکنیک ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’اور ہاں یہ بھی یاد رکھیں آپ کا حال آپ کے بچوں کا ماضی ہوتا ہے۔

آپ اگر اپنے بچوں کو اچھا ماضی دینا چاہتے ہیں تو آپ اپنا حال اچھا کر لیں آپ کے بچوں کا ماضی شان دار ہو جائے گا‘ ہم میں سے اکثر والدین یہ غلطی کرتے ہیں ‘یہ اپنے حال کو اچھا بنائے بغیر اپنے بچوں کا ماضی اچھا بنانا چاہتے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ اگر اپنے بچوں میں بک ریڈنگ‘ شائستگی‘ تہذیب اور محنت دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ یہ ساری عادتیں اپنی زندگی میں شامل کر لیں آپ کو اپنے بچوں کو محنت‘ تہذیب ‘ شائستگی اور مطالعے کی تبلیغ نہیں کرنی پڑے گی‘‘ پہلوان نے اتفاق کیا۔

میرا دوسرا مکالمہ میرے پروفیسر کے ساتھ ہوا‘ میں نے 1989 سے 1991 تک بہاولپور میں ان سے صحافت پڑھی تھی‘ میں 1992میں عملی صحافت میں آ گیا اور پروفیسر امریکا چلے گئے‘ یہ وہاں سے واپس آئے اور مختلف یونیورسٹیوں سے ہوتے ہوئے لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈین بن گئے‘ میری ان سے آخری ملاقات 2001 میں امریکا میں ہوئی تھی‘ یہ عاشورہ کے دن اچانک ملاقات کے لیے میرے پاس تشریف لے آئے‘ اٹھارہ برس بہت بڑا وقت ہوتا ہے‘ اس وقت کے دوران پل بھی نئے بن جاتے ہیں اور ان کے نیچے سے بے تحاشا پانی بھی گزر جاتا ہے‘ ہم دونوں استاد اور شاگرد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

ہمارے درمیان سے بھی پانی اور پل دونوں گزر چکے تھے‘ بہرحال مجھے ان کی صحبت میں دو گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘ ملاقات کا اختتام اس فقرے پر ہوا ’’تم میچ جیت چکے ہو‘ اب ریسٹ کرو‘‘ یہ لاہور واپس چلے گئے لیکن موبائل پر ہمارا رابطہ موجود ہے‘ میں نے دو دن قبل ان سے پوچھا ’’سر میں ریسٹ کر کے کیا کروں گا‘‘ وہ بولے ’’انجوائے کرو‘‘ میں نے پوچھا ’’سر انجوائے منٹ کیا ہوتی ہے‘‘ یہ بولے ’’انجوائے منٹ خوشی ہوتی ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر انسان انجوائے کیسے کرتا ہے‘ یہ کتابیں پڑھتا ہے‘ فلمیں دیکھتا ہے‘ سفر کرتا ہے‘ دوستوں کی خدمت کرتا ہے‘ خاندان کو وقت دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق جی بھر کر خرچ کرتا ہے اور فلاح وبہبود کے کام کرتا ہے‘ کیا انجوئے منٹ کے یہ ہی ٹولز ہیں ؟‘‘ پروفیسر صاحب نے جواب دیا ’’ہاں‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر میں یہ تمام کام جی بھر کر کر رہا ہوں‘ میں آپ سے زیادہ کتابیں پڑھتا ہوں‘ بے تحاشا فلمیں دیکھتا ہوں‘ دنیا کے 82 ملک پھر گیا ہوں‘ شمالی اور جنوبی قطبوں کو ہاتھ لگا آیا ہوں‘ تبت میں بھی چھ دن گزار آیا ہوں‘ سمندر‘ پہاڑ‘ دریا‘ صحرا اور غار تک نہیں چھوڑے‘ انبیاء کرام کے راستوں اور درگاہوں کی خاک تک اکٹھی کر رہا ہوں اور آپ کو پوری دنیا میں میرا کوئی ایسا دوست نہیں ملے گا جویہ کہہ دے ہم نے اس سے رابطہ کیا اور اس نے ریسپانس نہیں کیا‘ میں دشمنوں کے لیے بھی ہر وقت دستیاب ہوتا ہوں‘ خاندان کو بھی ٹائم دیتا ہوں۔

اللہ نے مجھے میری اوقات اور ضرورت سے زیادہ دیا‘ میں یہ دیا ہوا دل کھول کر خرچ کرتا ہوں‘ اگلے ماہ کے لیے رقم نہیں ہوتی اور اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق فلاح وبہبود کے کام بھی کرتا ہوں لہٰذا پھر انجوائے منٹ کے لیے کیا بچ جاتا ہے‘ بس سانڈ کی طرح سارا سارا دن بستر پر نہیں لیٹتا‘ چار چار گھنٹے غیبت نہیں کرتا اور افواہیں نہیں پھیلاتا بس‘ یہ کمی ہے‘ آپ اگر حکم دیں تو میں یہ بھی کر لیتا ہوں‘‘ وہ بولے ’’سچ بتائو‘ کیا تم خوش ہو‘‘ میں نے لمبی سانس لے کر عرض کیا ’’سر میںکتنا خوش ہوں آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘ وہ بولے ’’کیا ٹینشن نہیں ہوتی‘‘۔

میں نے عرض کیا ’’سر بے تحاشا ہوتی ہے‘ مجھے ڈپریشن اور اینگزائٹی بھی ہوتی ہے لیکن یہ کام کی وجہ سے ہوتی ہے‘ جوں ہی کام ختم ہو جاتا ہے ڈپریشن‘ اینگزائٹی اور ٹینشن بھی ختم ہو جاتی ہے‘ رات گئی اور بات گئی‘ اگلے دن دوبارہ میدان میں اتر آتے ہیں‘‘ وہ بولے ’’آپ غیر معمولی حد تک محنتی ہیں لیکن آپ اس محنت سے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر میں غیر معمولی حد تک معمولی انسان ہوں‘ میرے جیسے لوگوں کو پنجابی میں کھوتا کہا جاتا ہے۔

میں صرف اپنے جیسے کھوتوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں دنیا کا کوئی کھوتا محنت سے گھوڑا نہیں بن سکتا لیکن دنیا کی کوئی طاقت کسی کھوتے کو محنت کے ذریعے اچھا کھوتا بننے سے نہیں روک سکتی‘ میں اچھا کھوتا بن کر اپنے جیسے کھوتوں کے لیے راستہ کھولنا چاہتا ہوں‘ میں انھیں یہ بتانا چاہتا ہوں اگر میں پہنچ سکتا ہوں تو تم مجھ سے بھی پہلے یہاں آ سکتے ہو بس یہ بات پلے باندھ لو‘دوڑ سکتے ہو تو دوڑو‘ چل سکتے ہو تو چلو اور اگر رینگ سکتے ہو تو رینگو بس تم نے رکنا نہیں‘ دنیا کا بڑے سے بڑا گھوڑا بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا‘‘۔(بشکریہ ایکسپریس)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں