تحریر: زاہدہ حنا۔۔
تین مئی کی تاریخ آکر گزرگئی۔ ساری دنیا میں یہ دن آزاد صحافت کے دن کے طور پر منایا گیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی چھوٹے چھوٹے جلسے ہوئے اور اس بات کو اجاگرکیا گیا کہ آزاد صحافت اور جمہوریت کا ایک دوسرے سے کیا رشتہ ناتا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں صحافی کس طرح نشانے پر ہیں۔ صحافیوں کے خلاف جو اقدامات کیے گئے ، انھیں ہراساں کرنے اور جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی جو کوششیں کی گئیں ان میں سے 34 فیصد اسلام آباد میں ہوئیں۔ سندھ کا صوبہ صحافیوں کے لیے دوسرا سب سے خطرناک علاقہ تھا اور یہاں 26 فیصد وارداتیں ہوئیں۔
اعداد وشمار کے مطابق ایک برس کے دوران گزشتہ سال کی نسبت 40 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ ایک بہت خطرناک رجحان ہے۔ ٹیلی ویژن کے لیے کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سماج کے وہ عناصر جو غیرت کے نام نہاد قتل ، قرآن سے شادی ، کم عمر لڑکیوں کی شادی جوکہ قانوناً جرم ہے اور اسی طرح کے متعدد معاملات کی خبر دینے والی خواتین اور لڑکیاں ہر وقت ان جرائم میں ملوث با اثر افراد کے نشانے پر رہتے ہیں۔ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ بعض ڈراما سیریل جو سماج کے با اثر لیکن قتل اور دوسرے جرائم میں ملوث افراد کی کہانی سناتے ہیں ، ان کہانیوں کے لکھنے والوں یا لکھنے والیوں اور ان میں پر اثرکردار ادا کرنے والیوں کو دھمکایا گیا اور انھیں ہراساں کرنے کی خطرناک کوششیں کی گئیں۔
یہ تو ہمارے ملک کا احوال رہا لیکن دنیا میں ایسے بھی ملک ہیں جن میں صحافت کی گردن کو حکومت نے دبوچ رکھا ہے۔رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز کے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کی تازہ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ دنیا کے 73 ملکوں نے صحافت کا گلا گھونٹ رکھا ہے اور بہت سے ملکوں نے کورونا کی وبا کو بہانہ بناکر صحافیوں کو خبریں دینے سے محروم کردیا ہے۔ ان میں اریٹیریا، چین ، شمالی کوریا ، جبوتی اور بعض دوسرے ملک سرفہرست ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو ناروے ، فن لینڈ ، سوئیڈن ، ڈنمارک اور کواسٹاریکا صحافیوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ مشرق وسطیٰ ، شمالی افریقا وہ خطے ہیں جہاں صحافی مسلسل عذاب میں ہیں۔ ایران ، سعودی عرب ، مصر اور شام میں گزشتہ برس کی نسبت صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے۔ ملائیشیا کا حال بھی خراب ہے۔ اصل خبرکے گرد حکومتی افراد جھوٹی خبروں کا خوبصورت جال بنتے ہیں اور پھر انھیں سچی خبرکہہ کر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے سیلف سنسر شپ کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ یہ بہ ظاہر ایک سرسری سی بات ہے لیکن صحافت کی آزادی کے حوالے سے یہ نہایت اہم معاملہ ہے۔ اس بارے میں ہمارے بے باک صحافی جناب ضمیر نیازی نے جولائی 1997 میں لکھا جوان کی کتاب ’’ انگلیاں فگار اپنی ‘‘ میں شامل ہے۔ انھوں نے لکھا۔۔سیلف سنسر شپ ’’ ایک دانش مندانہ اطاعت اور خاموش اعانت ‘‘ کا نام ہے۔ جسے کارکن صحافی بعض معاملات کے سلسلے میں اختیارکرتا ہے۔ اس کا آغاز لکھنے والا کرتا ہے۔ جو باہرکی پابندیوں اور دفتر کے اندرکی کارکردگی کو ذاتی تجربات کی روشنی میں بخوبی سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کیا چیز قابل اشاعت ہے اور کیا چیز قابل اشاعت نہیں ہے۔ فرائڈ کی اصطلاح میں یہ ’’ اندر کے خوف اور دبائو ‘‘ کی پیداوار ہے۔ یہ خارجی دبائو سے زیادہ خوفناک ہوتی ہے۔ انسان کے اندر جو بہت سے خوف ہوتے ہیں یہ انھیں میں سے ایک ہے۔ یعنی نامعلوم کا خوف۔ خود اختیاری خاموش لکھنے والے کو ایک خاص طرح کی بیگانگی اور لاتعلقی کی طرف لے جاتی ہے اور یہ احساسات اپنے اندرکے خوف سے پیدا ہوتے ہیں۔
اندرکا دبائو انسان کو خوف زدہ رکھتا ہے پھر کسی شخص کے ضمیر پر سنسرکا پہرہ بٹھا دینے سے ایک اور بھیانک صورت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے اور اپنی پہچان کھو بیٹھتا ہے، معاشرے سے لا تعلق اور زندگی کے حقائق سے بے گانہ ہوجاتا ہے اور بالآخر اپنے آپ سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے۔براہ راست سنسر شپ میں بہت سے قباحتیں ہیں ، لیکن سیلف سنسر شپ کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے کوئی تحریر لکھی ہے اب خود ہی اس کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ یہ اشاعت کے قابل ہے یا اسے ردی کی ٹوکری میں جانا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنا سنسر خود ہے پریس ایڈوائس کے نظام کی طرح یہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ایک ’’ ادارہ ‘‘ بن جاتا ہے۔
دراصل سیلف سنسر شپ کا مفہوم یہی ہے کہ اس آدمی کو جو لکھنے والے کے پہلو میں کھڑا اس کی تحریر پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اور اسے لکھنے والے کے دل و دماغ میں بسا دو تاکہ اس کی فکر ایک خاص نظریے کے تابع اور مفلوج ہوجائے۔ اس طرح لکھنے والا غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو ایک ’’سنسر ‘‘ مقرر کردیتا ہے اور جب وہ اس سے بھی مطمئن نہیں ہوتا تو اپنے کسی رفیق کار یا سینئر سے ’’ مشورہ ‘‘ کرتا ہے اس طرح مزید دو نگراں شامل ہو جاتے ہیں۔
سنسرکرنے والوں کی تعداد جتنی بڑھتی ہے حقائق کا چہرہ اتنا ہی دھندلا جاتا ہے۔ زہرہ یوسف 1980 کی دہائی کے اوائل میں ’’ دی اسٹار ‘‘ سے وابستہ تھیں۔ انھیں نے سیلف سنسر شپ کو براہ راست سنسر کے مقابلے میں ’’ کہیں زیادہ پر فریب اور قہار سے بھرا ہوا ‘‘ پایا۔ اس سے ’’ یہ احساس وابستہ تھا کہ سرکاری سنسر کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا جا رہا ہے یا کسی داخلی طاقت کی خوشنودی حاصل کی جارہی ہے اور یہ دونوں تجربے نہایت غیر انسانی تھے۔جب پری سنسر شپ کی جگہ سیلف سنسر شپ نافذ کی گئی تو وزارت اطلاعات کے شانوں کا بوجھ ہلکا ہوگیا جو ان کی راتوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے تھا اور جس کے لیے وہ نصف شب تک کام کرتے تھے۔ یہ لوگ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے تھے کیوں کہ ساری ذمے داریاں اب خود مدیران اخبارات اور ان میں لکھنے والوں کی طرف منتقل ہوگئی تھیں۔ اب یہ ہوا کہ پہلے وہ لکھتے پھر اپنی ہی تحریر پر محاکمہ کرتے۔ یہ خوف کہ معلوم نہیں اب اس کے بعد کیا ہو ، ان کے ذہنوں کا کابوس بن گیا۔
جنرل ضیاء الحق چلے گئے ، ان کے ساتھ وزرا اور سیکریٹری چلے گئے لیکن کیا کمال ٹولہ تھا جو بہت سے صحافیوں اور ادیبوں کے ذہن میں سیلف سنسر شپ کا وہ کابوس بٹھا گیا جو آج بھی ان میں بہت سوں کے ذہنوں سے نہیں نکلا۔ دہائیاں گزر گئیں لیکن لکھنے والے اس کابوس کے شکنجے میں ہیں۔ وہ کون سی 3 مئی آئے گی جب سیلف سنسر شپ کی جونک ہمارے ذہنوں سے نکلے گی اور اسے ہم اپنی ایڑی کے نیچے کچل سکیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔