تحریر: ناصر جمال
سلیکشن کمیشن، وفاق، نگران وزیراعلیٰ اور دوست ایک پیج پر ہیں۔ ملک سیکیورٹی اسٹیٹ تھا اور ہے۔ جبکہ پنجاب کو ایک بار پھر پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ عثمان انور اور بلال کیمیانہ کے بعد، آئی بی سے ذاتی وفاداروں کی پوری کھیپ، پنجاب میں ”لینڈ“ کروائی جارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے پولیس افسران کی خدمات، پنجاب کے حوالے کر دی ہیں۔
فواد چوہدری کے بعد فرخ حبیب پر جو ایف۔ آئی۔ آر درج کی گئی ہے۔ لگتا ہے۔ سیاستدان اور اس کے آرکیٹیکچر، ابھی تک مرغی، سائیکل اور بھینس چوری کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ پتہ نہیں کب بالغ ہونگے۔ کچھ ایسے ہی دلخراش واقعات، پچھلی حکومت میں بھی دیکھنے میں آئے تھے۔ انہیں بھی یہ زُعم تھا۔ ’’محبوب‘‘ ان کے ساتھ ہے، تو انتظامیہ، ہمیشہ اُن ھی کے قدموں میں رہےگی۔ یہی خوش فہمی موجود والوں کو بھی ہے۔ جو آج چوتھے، اقتدار میں بیٹھے ہیں اور انھوں نے ”ککھ“ نہیں سیکھا۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کا 16اکتوبر 1999 کو انٹرویو کیا ۔ خبریں میگزین میں انٹرویو کی ’’پنچ لائن‘‘ لگی۔ فوج نے آنا ہے تو وردی اتار کے آئے۔ میں نے سوال پوچھا، نواب صاحب، آپ نے نواز شریف کو سزائے موت دینے کی مخالفت کی ہے وہ بولے، بھٹو کو بھی سزائے موت دینے کی مخالفت کی تھی۔۔۔ میں نے پوچھا کیوں۔۔۔ وہ مسکرائے، شعر پڑھا اور دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔
حُسن والے میرے قاتل ہیں یہ دعویٰ ہے میرا
حُسن والوں کو ہو سزا، مجھے منظور نہیں
آج سیاستدانوں کی تیسری نسل میدان سیاست میں ہے۔ قہط الرجال ہے۔ مفادات ، ذات اور ناک سے آگے انھیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک روز چوہدری اعتزاز احسن کہنے لگے۔ گریجویٹ نسل نے سیاست میں تباہی مچائی دی۔ یہ اپنے جن بزرگوں کو ان پڑھ کہتے ہیں۔ انھوں نے بڑی سے بڑی پیش کشوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مگر اس نسل نے معمولی، معمولی چیزوں پر سر جھکا دیا۔
قارئین۔۔نگران وزیراعلی کے مبینہ ٹویٹراکائونٹ سے جوکچھ لکھا جارہا ہے۔ وہ ناقابل یقین اور ناقابل قبول ہے۔ محسن نقوی اس پر وضاحت دیں۔ وہ نہیں دیتے۔ تو ہمارے محترم اور مقدس اداروں پر سنگین الزام لگانے والے، لاڈلے وزیر اطلاعات، اس پر پالیسی بیان دیں۔ نفرت انگیز مبینہ بیان سے اظہار لاتعلقی کریں۔ یا اسے قبول کریں۔گزشتہ روز ایک افسر نے تُنک کر کہا کہ”نگران وزیراعلی کے پیچھے نیوکلیئر اسٹیٹ کھڑی ہے اس کو تو اس سے زیادہ تیز بیانات دینے چاہیں“۔
نگران حکومت ہر روز متنازعہ ہورہی ہے۔ ایک طرف عمران خان کی سیکیورٹی واپس لی گئی ہے۔ دوسری جانب کے۔ پی کو بھی گارڈز واپس لینے کے لئے اطلاعات ہیں کہ انھوں نے بھی سیکیورٹی اہلکار واپس بلا لئے ہیں۔ آخر یہ ہوکیا رہا ہے۔
اسلام آباد اور لاہور چڑیا گھر سے سکروٹنی ’’عین قانون کے مطابق اور حق“ ہے۔ مگر حتمی فیصلہ نگران وزیر اعلیٰ نے کرنا تھا۔ اب تک دونوں صوبوں میں بننے والی کابینائوں پر لوگوں کے تحفظات ہیں۔ کے ۔پی کابینہ کو ارب پتی لوگوں کی کابینہ کہا جارہا ہے۔ جبکہ پنجاب میں ’’مبینہ صحافیوں‘‘ کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ ہم ’’عامر میر‘‘ سے تجدید تعلقات پر اپنے معتبر ’’ادارے‘‘ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ویسے ہمارے سیاستدانوں نے بھی کتنا بھونڈا سسٹم بنایا ہے۔ صوبے اور مرکز افسران کے نام، ’’سلیکشن کمیشن‘‘ کو بھیجتے ہیں۔ جس کے وفاداروں کا وہاں غلبہ ہوتا ہے۔ وہ جو جی چاہے کروا لیتا ہے۔
مجھے 1998یاد آیا، بھارتی سکھ چیف الیکشن کمشنر،اعتزاز احسن کی بیٹی کی شادی میں، لاہور آئے۔ وہ لاہور جمخانہ میں ٹھہرے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا۔ سردار جی، آپ بطور چیف الیکشن کمشنر کتنے طاقتور ہیں۔ وہ مسکرائے اور پنجابی میں کہنے لگے پُتر۔۔۔ پہلے مجھے شک ہو۔ پھر مجھے یقین ہوجائے کہ فلاں حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے۔ میں وہاں کا انتخاب کالعدم کردوں گا۔ مجھے بھارتی سپریم کورٹ بھی نہیں پوچھ سکتی۔ میں سکتے میں اُن کی گفتگو سن رہا تھا۔
قارئین۔۔آج کیا، آپ ہمیشہ سے اپنا الیکشن کمیشن دیکھ لیں۔ بظاہر فخرو الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر لایا گیا۔ ہم خوش تھے۔ تگڑا اور غیر جانبدار الیکشن کمشنر آ گیا ہے۔بعد میں پتا چلا کہ وہ تو بے اختیار ہیں۔ ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ اصل پاور تو کمیشن کے پاس ہے۔ بعد ازاں، اب جاکر پتا چلا، کہ الیکشن کمیشن آج بھی کہیں اور دیکھتا ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ آر ۔ ٹی۔ ایس سے لیکر، ڈبوں، فیک پولنگ اسٹیشن تک ہر بار طریقہ واردات بدل جاتا ہے۔’’ واردات‘‘ بہر حال اپنی جگہ ویسے ہی موجود ہے۔
جسٹس مُنیر کے نظریہ ضرورت سے لیکر بھٹو کی پھانسی، جونیجو کی اسمبلی کی تحلیل (غیر قانونی ہونے کے باوجود کیا ہوا۔ کبھی اسلم لیگ اس پر بھی تو لب کشائی کریں۔ وہ نہیں کرتے تو وسیم سجاد ہی کردیں۔ عمر کے اس حصے میں تو سچ بول دیں۔) آصف زرداری پر منشیات کا ناجائز کیس، بے نظیر بھٹو کو ملک قیوم کی جانب سے سزا( پھر وہی آصف زرداری کے اٹارنی جنرل بنے) نواز شریف کو طیارہ کیس میں سزا، پھر جلا وطنی، پھر بے نظیر اور اُن کی وطن واپسی، پھر ایک بار، خود حاصل کردہ جلاوطنی، یہ سب کیا ہے۔ ’’احتساب‘‘ کے ڈرامے میں جو کچھ ہوا۔ وہ سب کیا تھا اور ہے۔ ’’سکرپٹ رائٹر‘‘ کیوں نہیں مان رہا۔ وہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ اس کا سکرپٹ پٹ چکا ہے۔ اب بھی اُسے سکون کیوں نہیں مل رہا۔ ملک تباہی کے آخری دھانے پر ہے۔ اُس کے دستاریں بدلنے سے ، ہوسکتا ہے۔ اُس نے تو کچھ حاصل کر لیا ہو۔ مگر ملک اور عوام کو دکھوں، تکالیف اور بے حسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
کبھی تو آپ بھی سوچیں۔ کوئی احساس زیاں ہے کہ نہیں۔ یا آپ ’’کولڈ بلڈڈ‘‘ ہوچکے ہیں۔ 75 سال کے بعد، سب اپنے ’’یہی کھاتے‘‘ کیوں نہیں کھولتے۔ کوئی تو حساب کتاب ہونا چاہئے۔آج جب، سب، ننگے کھڑے ہیں۔ کیا عساکر تو کیا سیاستدان، کیا مولوی تو کیا۔ بزنس مین، کیا بابو تو کیا صحافی، حتیٰ کہ عوام بھی ، پھر کیا مضائقہ ہے کہ سب کچھ تسلیم کرکے، دوبارہ سے سفر شروع کیا جائے۔ سب اپنے، اپنے کام پر جائیں اور اپنا، اپنا کام کریں۔ ایک دوسرے کو انگلی توڑنا، بند کریں۔ جو فیصلہ قوم کا ہے۔ اُسے کرنے دیں۔
مجھے 86 سالہ سابقہ ڈی۔ جی (سی) نے کہا کہ بیٹا، ہمارے بے نظیر کے بارے میں اندازے غلط تھے۔وہ ایک محب وطن عورت تھی۔ اور سب کو معاف کرکے واپس آئی تھی۔امریکی، اسے لیکر آنا چاہتے تھے۔ اس میٹنگ میں غلام اسحاق خان، جنرل حمید گل اور میں موجود تھا۔ جو اعلیٰ سطحی امریکی وفد سے طے تھی۔ وہ ایک سوال کو، تین بار گُھما کر کرتے رہے۔ اگر بے نظیر آتی ہے تو کیا، آپ کا ایٹمی پروگرام، ختم، رول بیک یا فریز ہوسکتا ہے۔ غلام اسحاق خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان یہ نہیں ہونے دیں گے۔ پھر ریاست بیٹھی۔ اس نے طے کیا کہ بے نظیر کو ہم آنے سے نہیں روک سکتے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد، اُسے کیسے روکنا ہے۔ پھر اُس کے لئے، اقدامات لئے گئے۔ کچھ لوگوں کو اُس میں ’’سیاسی لاٹری‘‘ لگ گئی۔ قسمت ’’لاہوری خاندان‘‘ پر مہربان ہوگئی۔ اصل میں ہم لوگ اندر سے ڈرے ہوئے تھے کہ اس کے باپ کو پھانسی ہوئی ہے۔ وہ کیا کرے گی۔ کچھ نہیں پتا۔ مگر میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے خدشات اور اندازے، بے نظیر کے بارے میں غلط تھے۔ پانچ سال پہلے سردی کے موسم میں انھوں نے ٹھنڈے ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ بیٹا، انسان، ادارے اور ملک کبھی ایسی صورتحال میں پھنس جاتے ہیں کہ وہاں انھیں درپیش بحران، صورتحال یا چیلنج میں کوئی ایک فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ فیصلہ کسی بدنیتی کے تحت لیا گیا ہو۔ اچھی نیت کے ساتھ بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر غلطی سدھارنے کا موقع ہو تو اُسے ضرور سُدھارنا چاہئے۔
میں آج ، ’’حافظ صاحب‘‘ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کہتا ہوں کہ وہ دل بڑا کرے۔ آج جبکہ الیکشن کمیشن، سلیکشن کمیشن بن چکا ہے۔ نگران حکومتیں، سیاسی جماعتوں کی کٹھ پتلی ہیں۔ رجیم چینج نتائج نہیں دے سکا۔ پہلی جانیوالی حکومت بھی متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا سکی تھی۔ جیسے اسٹاک ایکسچینج میں ’’کریکشن‘‘ ہوتی ہے۔ پاکستانی کی سیاسی، انتظامی، عسکری، کاروباری اور صحافتی اسٹاک ایکسچینج میں کریکشن کا وقت ہے۔ مہم جو سوچ اور مہم جوئوں سے معذرت کر لیں۔ اپنے بڑے ہونے اور ریاستے وفاداری کی پاسداری کرتے ہوئے۔ سب کو ایک جگہ بٹھا دیں۔ جب تک یہ روڈ میپ دے کر نہ اٹھیں۔ انھیں بٹھائیں رکھیں۔ ”یہ فن آپ سے زیادہ کون جاتا ہے“۔ عزت کمائیں، سیاچن، وزیرستان، بلوچستان اور سرحدوں پر شہید ہونے والوں کے خون کو ایسے رائیگاں نہ کریں۔آپ تو شہیدوں کے وارث ہیں۔ چلیں۔۔۔ پھر سے اچھے بچے بنتے ہیں ۔
آج ہماری دھرتی ماں، ہمیں پکار رہی ہے۔ سب کو معافی دیں اور خود بھی معافی طلب کریں۔
چلیں۔۔اس ملک کےلئے، ملک ریاض، عارف حبیب، عقیل کریم ڈھیڈی، یوسف شیرازی، حاجی رفیق پردیسی، سفائر والے میاں صاحبان، میاں منشا، احمد نواز سکھیرا، آصف حیدر شاہ، شاہد خاقان عباسی، اعتزاز احسن، ایمل ولی، اسعد محمود، اچکزئی، فواد چوہدری، حباس عباس رضوی، قیصر بنگالی، جان جمالی، صادق سنجرانی اور ’’حافظ صاحب‘‘ سمیت آپ جیسے بے شمار پروفیشنلز، رہبروں اور درد دل رکھنے والوں سے کام لے لیں۔انہیں مجبور کریں کہ انہیں اور کتنے پیسے چاہیے اور انہوں نے اور کتنا جینا ہے۔ کچھ تو اس ملک کو بھی واپس کریں۔انہیں اتنی عزت دیں۔ دیکھتے ہیں یہ اور کتنا نیچے گر سکتے ہیں۔
چلیں،،، غلطیوں کی سلیٹ صاف کرتے ہیں۔ ایک اور نیک بنتے ہیں۔ آپ قدم لیں۔ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ وگرنہ آپ، ہم سب، وقت کی دُھول ہونگے۔کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ قوم کی کتنے ہیں جرنیلوں کو فراموش کر چکی ہے۔مگر ان شہیدوں کو فراموش نہیں کر سکیں گے جنہوں نے اس ملک اور قوم کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔آپ کو تو صرف اپنی انا قربان کرنی ہے۔(ناصر جمال)
سلیکشن کمیشن، وفاق، محسن نقوی اور اسٹیبلشمنٹ
Facebook Comments