تازہ ترین مخبریاں اور وہ سب جس کیلئے پپو مشہور ہے
تازہ قسط کیلئے لنک پر کلک کریں۔۔
دوستو، ستمبر کے پہلے ہفتے میں سینہ بہ سینہ تحریر کیا تھا۔۔ دس دن میں شاید چار سینہ بہ سینہ لکھے تھے۔۔مخبریاں پھر بھی کافی بچ گئی تھیں۔۔لیکن پھر ایسا کچھ ہوا کہ ہم اتنے مصروف ہوگئے کہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔۔پپو بھی ناراض ہوا کہ یار مخبریاں اتنی زیادہ لے لیتے ہوتو لگاتے کیوں نہیں لیکن اسے چونکہ ہماری مصروفیات کا بخوبی علم تھا اس لئے وہ ہم سے لڑا نہیں اوربات چیت بھی بند نہیں کی۔۔ یہ آپ کا موسٹ فیوریٹ سلسلہ ہے، لوگوں میں اس سلسلے کی وجہ سے ہماری پہچان بھی بن گئی ہے۔۔اس لئے پیشہ وارانہ زندگی کے حوالے سے جب کسی محفل میں جاتے ہیں تو لوگ ہمیشہ نئی قسط کے بارے میں پوچھتے ہیں۔۔ ہم بہت جلدی لکھنے کا وعدہ کرکے معاملہ گول کرجاتے ہیں۔۔ لیکن پھر سے مصروفیات سر پر آنے والی ہیں اس لئے سوچا جلدی سے اس لمبے گیپ کو ختم کریں اور کچھ نہ کچھ آپ کو پہنچادیں۔۔اس لئے آج آپ کی خدمت میں سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط حاضر ہے۔۔ مخبریاں بہت زیادہ ہیں اس لئے لگتاایسا ہے کہ شاید اس کی اگلی قسط بھی آئندہ وتین روز میں آجائے۔۔تو چلیں پپو کی مخبریوں کی جانب چلتے ہیں۔۔
میڈیا پر جو مصنوعی بحران طاری ہے اسے دیکھتے ہوئے نامی گرامی اینکرز تو پہلے ہی یوٹیوب پر آگئے ، یہ وہ اینکرز تھے جو پروگرام اینکرز کہلاتے تھے اور باقاعدہ پروگرام کرتے تھے لیکن حالات کا شکار ہوکر اب یوٹیوب پر آگئے اور اپنا کمانے بھی لگے ہیں۔۔ایک مشہور اینکر کے حوالے سے پپو نے ہمیں سرگوشیانہ انداز میں بتایا کہ جتنا وہ چینل سے پیکیج لیتا تھا اس سے زیادہ یوٹیوب چینل سے کمارہا ہے۔۔ اینکرز نےا پنی ٹیمیں رکھی ہوئی ہیں ،روزانہ کام ہوتا ہے، وڈیوز ڈالی جاتی ہیں اور یوٹیوب سے کمایاجارہا ہے۔۔پروگرام اینکرزکی دیکھادیکھی اب نیوز اینکرز بھی یوٹیوب چینلز پر آگئے ہیں، حیرت انگیز طور پر آن جاب(یعنی چینل پر کام کرتے ہوئے) کچھ نیوز اینکرز بڑی باقاعدگی سے یوٹیوب چینلز بناکر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ پپو نے ان کے چینلز والوں سے سوال پوچھا ہے کہ یہ نیوز اینکرز کس قانون کے تحت ایسا کررہے ہیں جب کہ کسی بھی چینل کے تقررنامے (اپائنمنٹ لیٹر) پر یہ شق واضح ہوتی ہے کہ چینل کا کوئی بھی ملازم کسی اور جگہ اپنی خدمات انجام نہیں دے سکتا۔۔اینکرز تو کسی بھی چینل کا چہرہ ہوتے ہیں اگر یہ چہرے اپنے اپنے یوٹیوب چینلز بناکر اپنا چورن اور منجن بیچنے لگیں تو پھر چینلز کو کون دیکھے گا؟ لوگ تو یوٹیوب پر ہی دیکھ لیں گے پھر چینلز والوں کی ریٹنگ کہاں جائے گی؟؟ چینل والے جب بھاری معاوضے پر اینکرز کو رکھتے ہیں تووجہ ان کا چہرہ اور شہرت ہوتی ہے۔۔اگر وہی چہرہ اور شہرت اینکرز اپنے ذاتی کاروبار ، (جی ہاں کاروبار، خود سوچئے گا کاروبار کیسے؟؟) میں لگ جائے تو پھر چینل کے پرکشش پیکیج کا مقصد تو فوت ہوگیا؟؟اب اگر چینلز کے ایچ آر اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہے تو اس کی صرف دو ہی وجہ ہماری سمجھ آتی ہیں۔۔یا تو ایچ آر والے بالکل نااہل ہیں جنہیں اپنے کام سے متعلق کچھ بھی پتہ نہیں۔۔یا پھر چینل انتظامیہ اس اینکرز مافیا کے ّتھلےٗ لگی ہوئی ہے، ان اینکرز سے خوفزدہ ہیں کہ اگر ہم نے کوئی ایکشن لیا تو یہ لوگ چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔۔کتنے نیوز اینکرز یوٹیوب چینلز پر ایکٹیو ہیں، آپ لوگ خود دیکھ سکتے ہیں۔۔ہم نام اس لئے نہیں لکھ رہے کہ اکثریت ہمارے دوست ہیں۔۔ویسے ہر چینل میں ورکرز کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کون سا اینکر یوٹیوب پر آچکا ہے۔۔چینل انتظامیہ چاہے تو ایک دن میں سب کچھ پتہ کرسکتی ہے۔۔لیکن اگر ملین ڈالر کا سوال یہی ہے کہ اگر چاہے تو۔۔۔
ویسے حکومت اب چاہ رہی ہے کہ یوٹیوب چینل کی لائسنس فیس متعارف کردی جائے ۔۔سینئر صحافی روف کلاسرا نے ڈان نیوز کی ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے اس کا خلاصہ تحریر کیا ہے کہ۔۔عمران خان حکومت یوٹیوب چینل جس پر عام لوگ مزاحیہ یا معلوماتی چیزیں شیئر کرتے ہیں لائسنس معتارف کروائے گی جس کی فیس 50 لاکھ اور اگر کرنٹ افیرزوی لاگ کرتے ہیں تو ایک کروڑ روپے لائسنس فیس لے گی۔۔۔ڈان نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ۔۔ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والی 19کمپنیوں اور36نمایاں شخصیات نے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی وہ تجاویز مسترد کردی ہیں جن میں انٹرنیٹ ، ٹی وی چینلز اور اوور دی ٹاپ کانٹینٹ سروسز کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ان تنظیموں میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان،عورت مارچ کراچی، بولو بھی، ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن، انسٹیٹیوٹ فارریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ) ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ، عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق جبکہ نمایاں شخصیات میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی، انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ او صحافی ناصرزیدی، عدنان رحمت، عاصمہ شیرازی اور بابر عالم شامل تھے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام دراصل ان آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے جو مین اسٹریم میڈیا چھوڑ چکے اور اب اپنے یوٹیوب چینلز یا ویب ٹی وی پر بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ارادہ کے نمائندہ آفتاب عالم کہتے ہیں کہ پیمرا کا کہنا ہے کہ یہ مارکیٹ میں مقابلے کا معاملہ ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پیمرا کی تجاویز میں یہ با ت بھی شامل تھی کہ پیمرا ویب ٹی وی کو بھی لائسنس جاری کرے گا،کسی بھی تفریحی چینل کی فیس پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ روپے جبکہ کرنٹ افیئر ز سے متعلق ویب ٹی وی کی فیس ایک کروڑ روپے مختص کی جائے گی۔‘رپورٹ کے مطابق یوٹیوب کے علاوہ فیس بک اور ٹویٹر لائیو کو بھی ویب ٹی وی تصور کیاجائے گا۔۔۔ یعنی آپ یہ سمجھ لیں کہ اب آن لائن کانٹینٹ کو بھی ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔ پیمرا کی جانب سے تیارکردہ ان تجاویز کو۔۔کنسلٹیشن آن ریگیولیٹنگ دی ویب ٹی وی اینڈ اووردی ٹاپ ٹی وی (اوٹی ٹی) کانٹنٹ سروسز۔۔کا نام دیا گیا ہے۔۔اسے بلاشبہ آزادیِ اظہارِ رائے،رائٹ ٹو انفارمیشن اور ڈیجیٹل رائٹس کےخلاف قرار دیا جاسکتا ہے۔۔ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پرپوزل پیمراآرڈیننس 2002 کے تحت پیمراکے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، کیونکہ یہ آن لائن کانٹنٹ کو ریگیولیٹ کرناچاہتاہے۔ مزیدبرآں اس میں کہاگیاکہ ریگولیشنز سے کانٹنٹ کریٹرزکیلئےبڑی رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی اور ان کیلئےلائسنسنگ جیسی مشکل ضروریات پیدا کردی جائیں گی اور اس سے آزادکانٹنٹ کریٹرز کی فری تھینکنگ کانٹنٹ آن لائن تیارکرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔ ۔پپو کاکہنا ہے کہ سب سے خطرناک بات تو یہ ہے کہ پی ٹی اے کی جانب سے تیارکردہ اس ڈرافٹ پروپوزل کو عوام کے سامنے نہیں لایاجارہا۔۔لیکن اسے پارلیمانی کمیٹیز سے شیئرکیاگیا تاکہ انٹرنیٹ پر ’’افرادکونقصان پہنچنے سے روکنے کیلئے‘‘گائیڈلائن تیار کی جائیں ۔ چلیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔حکومت یوٹیوب کا رخ کب کرتی ہے۔۔تیاریاں تو شروع ہوگئی ہیں۔۔
آج کل ٹھنڈ کا موسم چل رہا ہے اور یہ موسم پپو کا پسندیدہ ترین موسم ہوتا ہے ، جب ہمیں اس ٹھنڈے موسم سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی کوئی یوتھیا ، شریف خاندان سے کرتا ہے، یا کوئی پٹواری کپتان سے کرتا ہے۔۔جب بھی شام کو پپو کے کیبن جاؤ تو وہ گرم خوراک، گرم مشروبات اور گرم بستر کا ذکر چھیڑدیتا ہے۔۔گزشتہ ہفتے ملاقات ہوئی تو پپو کو تنگ کرنے کے لئے کہا،تم بہت آرام پسند ہوتے جارہے ہو یارپپو۔۔ میڈیا والے سمجھ رہے ہیں کہ پپو بوڑھا ہوتا جا رہا ہے ، بات پپو کے دل پر لگی ہم جو اکٹھے بیٹھے چائے پی رہے تھے ، موصوف نے جلدی جلدی چائے کے گھونٹ بھرے اور سات چار گیارہ ہو گئے ، نو دو گیارہ تو ہر کوئی ہوتا ہے یہ پپو تھا اس لیے سات چار گیارہ ہو گیا۔۔کل پھر پپو سے ملاقات ہوئی تو سلام دعا کے بعد بولا۔۔عمران بھائی طعنے نہ دیاکرو۔۔پورا ہفتہ اپنے فیوریٹ موسم کے ساتھ اسلام آباد گزار کر آیا ہوں۔۔ہم حیران تھے کہ پپو نے سلام دعا کے فوری بعد یہ کیا بکواس شروع کردی۔۔پھر پپو نے یاد دلایا ہمارے اس طعنے کا جو ہم نے اسے گزشتہ ہفتے دیا تھا۔۔کہنے لگے۔۔اب فٹافٹ مخبریاں سنتے جاؤ اور اپنے کمپیوٹر(پپو ہمارے دماغ کو کمپیوٹر کہتاہے) میں جمع کرتے جاؤ۔۔ اس کے بعد پپو نے ملباری کو گرماگرم دو چائے ملائی مارکے لانے کا آرڈر دیا۔۔اور مخبریاں اسٹارٹ کردیں۔۔
پپو نے بات کچھ اس طرح شروع کی۔۔یاد ہے سچ ٹی وی کے کنٹرولر نیوز کی خبر میں نے عرصہ دو سال پہلے دی تھی ، جس کے بعد موصوف ادارے سے فارغ ہو گئے تھے ، میں نے ہاں میں سر ہلایا تو پپو رواں ہو گیا ، اس کے بعد کنٹرولر صاحب نے بہت سارے لوگوں کو تنگ کیا کہ یہ انفارمیشن کس نے دی ، ایک دو لوگوں پر تو ڈائریکٹ الزامات بھی لگائے ، اب بھلا صنف نازک کا معاملہ ہو تو کہاں چھپا رہتا ہے ، یہ تو حرکت کرنے سے پہلے سوچنا تھا ناں۔۔اس کے بعد موصوف دن ٹی وی اور وہاں سے جی نیوز میں گئے ، لیکن سب جگہ سے ہونے کے بعد گھوم پھر واپس اسلام آباد آگئے۔۔اورعرصہ تین چار ماہ سے ایک بار پھر سچ نیوز اسلام آباد میں بطور کنٹرولر نیوز لگ چکے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ دوبارہ سے وہی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔۔ اسٹاف اپنے اس افسر سے شدید تنگ ہے۔۔کیوں کہ موصوف کی زبان انتہائی گندی ہے، خواتین کے ساتھ بھی بدتمیزی کرنے سے باز نہیں آتے ، سچ ٹی وی کی تنخواہیں چار ماہ کی نیچے لگی ہیں یعنی اب جب کہ جنوری ختم ہو چکا تو اسٹاف کو ستمبر کی تنخواہیں ملی ہیں ، تنخواہیں بھی زیادہ نہیں لیکن مذکورہ افسر جان بوجھ کر اسٹاف کی سیلری میں سے کٹوتی کراتا ہے ، جس کیلئے عجیب و غریب منطق پیش کرتا ہے ، اب اپنی ایک بیوی کو اسلام آباد لے آیا ہے اور سچ ٹی وی کے قریب ہی گھر لیا ہے ، سچ میں پہلے ہی گاڑیاں کم ہیں اب موصوف ایک گاڑی کو گھر کے سامنے کھڑا رکھتے ہیں اسی پر دفتر آتے ہیں ، دن میں بھی دفتر سے گھر جانا ہو تو دفتر کی گاڑی لے کر جاتے ہیں جب تک گھر رہیں تب تک گاڑی باہر کھڑی رہتی ہے اور دفتر میں گاڑی کا شور پڑا رہتا ہے۔۔اتنا کہہ کر پپو نے چائے کا لمبا سپ لیتے ہوئے کپ خالی کردیا اور کہنے لگے۔۔موصوف کی خواتین میں دلچسپی والی بات پھر کسی دن ابھی اور بہت کچھ بتاناہے ، یہ کہہ کر پپو خاموش ہوا تو ہم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو قہقہے مار کر ہنسے اور بولے۔۔یار چائے بہت ٹائٹ بنائی ہے ملباری نے ، ایک کپ اور منگاتاہوں،آپ نے پینی ہے، ہم نے منع کیا تو ایک اور کپ کا آرڈر کرکے پپو پھر شروع ہوگئے۔۔، خود دفتر 12بجے کے بعد آتا ہے ، لیکن جب آ جاتا ہے تو چیختا چنگھاڑتا ہے تاکہ انتظامیہ تک کوئی خبر نہ پہنچائے کہ موصوف کب آتے ہیں کب جاتے ہیں بس 12 تک کام موبائل کے ذریعے ہی چلتا ہے ، چینل کے ریسورسز سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رکھا ہے ، نیٹ چینل کا اور فوٹیج بھی ، کلین فیڈ بھی اور سارا دن موصوف اپنا یوٹیوب لائیو چلاتے رہتے ہیں ، مختلف چینلز کی ایف ٹی پی کے ایڈریسز بھی رکھے ہوئے ہیں جہاں سے فوٹیجز چوری کی جاتی ہیں۔۔ایڈمنسٹریشن کے سامنے اسٹاف کی برائیاں کرنا مشغول ترین مشغلوں میں سے ایک ہے ، کیونکہ ہر غلطی کا الزام اپنے ماتحت عملے پر لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے لیتا ہے ، ابھی سینٹرل نیوز روم میں مختلف لوگوں کی ذمہ داریاں بدل دیں جن دو لوگوں کے ساتھ کدورت تھی انہیں کھڈے لائن لگا دیا جن میں سے ایک او ایس آر انچارج بھی ہے ، اب او ایس آر انچارج ایک لڑکی کو بنایا ہے ، جسے کام کا تجربہ نہیں دراصل وہاں پر اپنا بندہ لانا چاہتا ہے ، ڈائریکٹ لا نہیں سکتا تھا کیونکہ سابق انچارج ایک لمبے عرصے سے اس سیٹ پر تھا اس لیے پوری گیم چلائی ہے ، اب جلد ہی وہ شخص او ایس آر انچارج بنے گا ، جو نیوز روم کے ہر شخص سے لڑ چکا ہے اور اسے قبل کیپٹل ٹی وی سے اپنی ناقص پرفارمنس کے باعث فارغ کیا گیا تھا۔۔پپو کے مطابق موصوف نے نیوز روم میں اپنے دو جاسوس بھی چھوڑ رکھے ہیں جن کے ذریعے پل پل کی خبریں لیتا ہے ،اسٹاف کے سامنے عموما کہتا ہے کہ مالکان کو چیزوں کا نہیں پتا ہے ، ابھی چینل میں سینئر صحافی سجاد ترین کی انٹری ہوئی ہے جو 18 سال سے نوائے وقت کے ساتھ وابستہ تھے ، موصوف ان کے خلاف بھی اوپر نیچے کان بھرتے رہتے ہیں ، خود کو اسٹیبلشمنٹ کا بندہ قرار دے کر رعب ڈالنا بھی عادت بن چکی ہے ، دفتر کا ہر شخص کنٹرولر نیوز سے تنگ ہے فرعونیت کو قائم رکھنے کیلئے بے وجہ ایچ آر سے لوگوں کو نوٹسز بھی دلواتا رہتا ہے ، یہ کہہ کر پپو نے چائے کی نئی پیالی ٹیبل پر رکھی اور کہنے لگے۔۔کنٹرولر نیوز کی تو بڑی رنگین کہانیاں ہیں، ابھی تو جو کچھ بتایا وہ کچھ بھی نہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسی پر بات کرتے رہیں تو میری مزید مخبریاں رہ جائیں گی۔۔سچ نیوزکے حوالے سے ایک اور مخبری بھی چلتے چلتے سن لو۔۔سچ ٹی وی میں او ایس آر نمائندوں کو ادارے نے شاہی احکامات جاری کردیئے۔۔پپو کے مطابق او ایس آر ہیڈ کی جانب سے تمام نمائندوں کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں جب میں انہیں کہاگیا ہے کہ وہ تمام نمائندے جن کی سیکورٹی ایچ آر سے کلیئر نہیں جنوری کے بعد انہیں فارغ کردیاجائے گا اور سچ ٹی وی پر ان کی کوئی نیوز نہیں چلائی جائے گی۔۔ او ایس آر ہیڈز کی جانب سے جاری ہدایات نامے کے مطابق کہاگیا ہے کہ یکم جنوری 2020 سے تمام بیورو چیف اور او ایس آر ، کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا یہ جائزہ روزانہ کی بنیاد پر ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر لیا جائے گا۔ اور جن نمائندگان کی کارکردگی صفر ہوگئی ان کی جگہ پر متبادل نمائندگان کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔یکم جنوری دو ہزار بیس کے بعد وہ تمام نمائندے جن کی سکیورٹی ایچ آر سے کلیئر نہیں ہے ان کو تمام واٹس اپ گروپس ایف ٹی پی کی ایکس سی فلفور خارج کر دیا جائے گا۔ اور سچ ٹی وی پر ان کی کسی قسم کی کوئی خبر نہیں چلائی جائے گی۔تمام بیورو چیف اور او ایس آر اپنے اپنے علاقے میں کیبل چلوانے کے پابند ہوں گے ، یکم جنوری 2020 کے بعد تمام تر بیوروچیف اور اویس آر کی بہتر کارکردگی کی پہلی شرط اس کے علاقے میں سچ ٹی وی وی کیبل پر آن ایر ہونا ہو گی۔ اس کے لئے ان کو دو ماہ کا وقت دیا جاتا ہے ، کیبل نہ چلنے کی صورت میں ان کی برطرفی عمل میں لائی جائے گی۔تمام بیورو چیف اور او ایس آر، اپنے اپنے علاقے سے سچ ٹی وی کے اشتہارات کے لیے کام کریں گے جو بزنس لے کر آئیں گے ریکوری پر اس کی ایک مناسب پرسنٹیج ان کو دی جائے گی واضح رہے کہ اس کام کے لیے تمام بیورو چیف اور او ایس آر کے پاس تین مہینے کا وقت ہوگا علاوہ ازیں سچ ٹی وی مذکورہ بندے کو ریپلیس کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
اب ذکر بول کا۔۔ پچھلے کئی سینہ بہ سینہ میں بول کا ذکر گول تھا۔۔لوگوں نے اس حوالے سے کافی سوالات بھی کئے تھے جس پر ہمارا کہنا تھا کہ جب خبر ہوگی کوئی شاندار سی مخبری ہوگی تو لازمی دیں گے، ٹیبل اسٹوری یا تنقید برائے تنقید ہماری پالیسی نہیں۔۔ آپ لوگ جس طرح سے ہماری ویب عمران جونیئرڈاٹ کام پراعتماد کرتے ہیں اور ہماری ہر خبر پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے ہیں ،الحمدللہ،ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر خبر کاؤنٹر چیک کرکے اور تحقیق کے بعد آپ تک پہنچائیں، ہمارے پاس روزانہ درجنوں خبریں میڈیا سے متعلق آرہی ہوتی ہیں لیکن ذاتیات پر مبنی یاکسی سے دشمنی پر اپنی خاربازی نکالنا،کسی پر فضول سی تنقید کرنے والی خبروں کو ہم نظرانداز کردیتے ہیں۔۔ہمارے لئے وہی خبر سب سے اہم ہوتی ہے جس میں ہمارے کسی دوست میڈیا ورکر کو (سارے میڈیا ورکرہمارے دوست ہیں) ظلم،ناانصافی یا استحصال کا نشانہ بنایاگیاہو۔۔ ورکراور چینل کی لڑائی میں ہم ہمیشہ اپنے ساتھی ورکرکے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔۔ہاں تو بات ہورہی تھی بول کی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔بول نیوز میں جیسے ہی تنخواہیں ملنے لگیں سازشی عناصر نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ بول کے نیوز پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ میں گروپنگ کیلئے صف بندیاں ہونے لگیں۔ پاک نیوز سے لائے گئے ایک صاحب جو کہ پیشہ وارانہ طور پر پینل پروڈیوسر سے زیادہ کچھ نہیں انہیں نائٹ شفٹ کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں وہ اب بغیر عہدے کے کنٹرولر بن گئے ہیں۔ ڈیوٹی نائٹ میں ہونے کے باجود نائٹ میں آنے کے بجائے مارننگ شفٹ میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو نوکری پر رکھ لیا اور نائٹ شفٹ کی نگرانی انہیں سونپ دی گئی ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اہلیہ بھی ورکنگ جرنلسٹ ہوں گی تو ایسا قطعی نہیں ہے، پپو نے انکشاف کیا ہے کہ موصوف اپنی اہلیہ کی ٹریننگ کرارہے ہیں ، تاکہ اس کے بعد بول میں ہی اسے ملازم رکھواسکیں۔۔ایک طرف موصوف نائٹ شفٹ کی ذمہ داریوں کے باوجود خود نائٹ شفٹ سے غائب پائے جاتے ہیں تو لازمی سی بات ہے کہ نائٹ شفٹ انچارج کی غیرموجودگی میں بڑے پیمانے پر آن ائیر غلطیاں جا رہی ہیں جس پر انتظامیہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جس پر موصوٖ ف نے واپس اپنی شفٹ میں جانے کے بجائے صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی ہے۔ اور گزشتہ رات اپنے ذاتی نمبر سے میسج کر کے دو صحافی (خ اور ف) کو ایچ آر سے رابطہ کرنے کا کہہ دیا گیا۔ جس کے بعد وہ دونوں اپنی نوکریوں سے محروم کر دیئے گئے۔
مخبریاں تو مزید بھی کافی تعداد میں ہیں، لیکن زیادہ طویل ہوگیا سینہ بہ سینہ تو آپ لوگ بور ہوجائیں گے۔۔لہذا آج کے لئے اتنی ہی ڈوز کافی ہے۔۔یہ ہمارا وعدہ ہے کہ اگلا سینہ بہ سینہ انشااللہ ۔۔ہفتے کی شب لازمی ریلیز کیا جائے گا۔۔جس میں سرعام کے حوالے سے انکشاف ہوگا۔۔ایک چینل مالک کے خلاف زمین پر قبضے کے خلاف ایف آئی آر پر بات کی جائے گی۔۔ایک چینل کے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اینکرز کا احوال بھی لازمی دیں گے۔۔اور چینلوں میں چوریوں سے متعلق بھی کچھ معاملات ڈسکس ہوں گے۔۔ تو آئندہ ہفتے تک کیلئے اپنا خیال رکھیئے گا۔۔
نوٹ: یہ بلاگ عرصہ چار سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ ہم دانستہ یا ناداستہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ ہماری تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچے، ہمارا مقصد صرف اور صرف میڈیا پر ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے،واضح رہے کہ یہ میڈیا انسائٹس کے حوالے سے ایک بلاگ ہے،جسے “خبریانیوز” نہ سمجھا جائے، (علی عمران جونیئر۔۔)