سینہ بہ سینہ 100
دوستو، اللہ کے فضل و کرم سے سینہ بہ سینہ کی آج سینچری ہے۔۔ یہ سلسلہ اپنی سو اقساط پورا کررہا ہے جسے ہم نے دوہزار پندرہ میں لکھنا شروع کیا تھا، جس میں کافی گیپ بھی آئے ، کافی پریشر بھی آیا، لوگوں نے دھمکیاں بھی دیں، آزادانہ نقل و حمل مشکل ہوگئی، نوکری سےنکلوانے کی کوششیں بھی کی گئیں، کروڑوں روپے ہرجانے کے دعوے بھی کئے گئے، سائبر کرائم کے مقدمات بھی بنائے گئے، لیکن الحمدللہ اس سلسلے کو ہم نے روکا نہیں اور شاید ملکی تاریخ میں یہ یہ پہلا سلسلہ تھا جس نے میڈیا انڈسٹری میں مقبولیت کی انتہا کو چھولیا۔۔لوگ شدت سے اس کا انتظار کرتے تھے ، گزشتہ قسط یعنی ننانوے ایپی سوڈ گزشتہ سال رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل آئی تھی، جس کے بعد کچھ مسلسل مصروفیات، کچھ طبیعت کی خرابی اور کچھ خاندانی مسائل ایسے تھے کہ لکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی، پھر گزشتہ قسط میں ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اب اس سلسلے کی آخری قسط ہوگی، اسی لئے ہم مسلسل اپنی ذہن سازی میں مصروف تھے کہ آخری قسط کچھ دھماکہ خیز ہو، ہمارا ارادہ تھا کہ یہ سلسلہ جس طرح اپنی مقبولیت کی انتہا کو چھورہاہے ا س لئے اسے سینچری مکمل ہوتے ہی بندکردیاجائے اور اس کی جگہ کوئی اور سلسلہ شروع کیا جائے لیکن کسی ایک نے بھی ہمارے موقف کی تائید کی نہ ہم سے اتفاق کیا۔۔ پھر جب ہم کراچی آئے تو پپو سے بھی اس پر ٹیبل ٹاک ہوئی، پپو اور ہم ایک ہی ٹیبل کے اوپر چڑھ کر بیٹھے اور کافی دیر تک سرجوڑے رہے یہاں تک کہ جوئیں ایک دوسرے کے سروں سے نقل مکانی کرگئیں۔۔ پپو نے ہمیں سمجھایا کہ فی الحال اس سلسلے کا بند ہونا مناسب نہیں۔۔ کوشش کرینگے کہ پپو کی مخبریوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔۔ اور جو کچھ قسط نمبر 99 میں آپ سے وعدہ کیا تھا اور اسے لکھ نہ سکے اسے بھی نمٹاسکیں۔۔ پچھلی قسط کے بعد کافی بڑی تعداد میں لوگوں نے فرمائش کی ہے کہ اس سلسلے کو بند نہ کیا جائے اگر ہفتہ وار لکھنے میں پریشانی ہورہی ہے تو اسے ماہانہ کردیں کیونکہ پپو کی مخبریوں سے کافی کچھ معاملات کا پتہ لگ جاتا ہے۔۔ ہماری ویب ٹیم کا بھی پریشر ہے کہ برائے کرم اس سلسلے کو قطعی بند نہ کیا جائے کیوں کہ ویب پر سب سے زیادہ ہٹس اسی سلسلے کوملتی ہیں اور سب سے زیادہ فیڈ بیک بھی اسی کا آتا ہے۔۔ آپ سب کا اصرار اور محبتیں سرآنکھوں پر لیکن، بات وہی ہے کہ جس کو عروج ملے تو اپنی مقبولیت کے شباب میں ہی ریٹائرمنٹ لے لے ورنہ زوال شروع ہوا تو پھر کسی نے مڑ کے بھی نہیں دیکھنا۔۔ پپو کی بس ایک ہی ضد ہے، اگر آپ کو اس کا زبردست فیڈ بیک مل رہا ہے تو پھر اسے جاری رکھیں اور جب آپ یہ سمجھنے لگیں کہ اب لوگوں کی توجہ کم ہوگئی ہے تو آپ اسے ختم کردیں۔۔ پپو کی بات میں بھی وزن تھا لیکن بات پھر وہیں پہ آجاتی ہے کہ جب لوگوں نے دلچسپی لینا چھوڑ دی تو پھر ریٹائرمنٹ فائدہ؟؟ خیر یہ ایک لمبی بحث ہوسکتی ہے۔۔ اس لئے بات کو سمیٹتے ہوئے آپ کو یہ خوشخبری سنارہے ہیں کہ پبلک کے بے حد اصرار اور پپو کی بے انتہا فرمائش پر ہم اس سلسلے کو بند نہیں کررہے بلکہ انشااللہ یہ جاری رہے گا، کوشش کریں گے کہ مہینے میں دوبار ضرور حاضری دیا کریں۔۔۔کیونکہ ہفتہ وار مسلسل لکھنا ہمارے بس کی بات نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ پپو کی مخبریاں ختم ہوگئی ہیں بلکہ اسے ہماری کاہلی سمجھ لیں۔۔ہم آپ کا مزید سر نہیں کھپائیں گے ، چلیں جلدی جلدی اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں۔۔مخبریاں بے تحاشا ہیں، کوشش کرینگے کہ کچھ اہم اہم آپ سے شیئر کرلیں۔۔ باقی جو رہ جائیں گی۔۔ وہ پھر اگلی بار بہت جلد۔۔۔مگر اس بار گیپ لمبا نہیں ہوگا۔۔۔۔
اس بار کے سینہ بہ سینہ کا آغاز کرتے ہیں، دو تازہ ہراسمنٹ کیسز سے، جس میں سے ایک تو ایک بڑے چینل کے اندر ہوا،جب کہ دوسرے واقعہ میں ایک چینل کے کارکن نے دوسرے چینل کی خاتون اینکر کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔۔ پپوکی بتائی گئی مخبری کے مطابق۔۔ اے آر وائی کے ایک مارننگ شو کی ایک خاتون کارکن نے ایچ آر کو ای میل پر ہراسمنٹ کی شکایت کی، جس پر ہراساں کرنے والے بندے کی طلبی کی گئی، جواب طلب کیاگیا تو موصوف نے چینل کے بڑے بڑے ناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ لوگ “کچھ ” کرتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں کہاجاتا، لیکن سارا نزلہ غریب ورکر پر گرایاجاتا ہے۔۔ پپو نے ہراسمنٹ کے اس واقعہ کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ ، مارننگ شو کی ٹیم کے بندے نے اسی چینل میں کام کرنے والی ایک خاتون سے دوسری شادی کی تھی، پھر جب وہ یہ شادی نبھانہ سکا تو علیحدگی اختیار کرلی، جس پر مارننگ ٹیم کی ایک اور خاتون نے موصوف کی پہلی بیوی سے سوشل میڈیا پر رابطہ کیا، جس پر پہلی بیوی نے موصوف سے کہا کہ یہ لڑکی کون ہے اور کیوں رابطہ کرنا چاہ رہی ہے، جس پر موصوف آگ بگولہ ہوگئے اور رابطہ کرنے والی خاتون کو مغلظات بکیں اور برابھلا کہا جس پر اس خاتون نے ایچ آر کو ہراسمنٹ کے حوالے سے میل کرڈالی۔۔ جس پر موصوف سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے بڑا انکشاف انگیز جواب ایچ آر کو دیا، جس میں کئی بڑے ناموں کا ذکر بھی آیا، خیر اس جواب کا یہاں ذکر کرنا غیرضروری ہوگا۔۔یہ تو ہوا پہلا ہراسمنٹ کیس جو بالکل تازہ ہے۔۔ اسی طرح ایک اور کیس بھی سامنے آیا ہے جس میں ایک دوسرے چینل کی خاتون اینکر نے سوشل میڈیا پر ایک اسٹیٹس لگایا جس میں سابق چینل میں کام کرنے والے ایک صاحب کی انباکس گفتگو کے اسکرین شاٹ بھی لگائے کہ وہ کس طرح کی گھٹیا زبان استعمال کررہا ہے، اس اسٹیٹس کو پپو نے دیکھ کر ہمارے کانوں میں مخبری ڈال دی، ،اتفاق سے ان صاحب نے بھی ہمیں واٹس ایپ پر رابطہ کیا تھا، اور اسی معاملے کا بتاتے ہوئے کہ یہ سارے اسکرین شاٹ جعلی ہیں۔۔ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔ ہم نے ا س کی بات کا یقین کرلیا کیونکہ وہ ہمارے پرنٹ میڈیا کے زمانے کے دوست ہیں۔۔ اور ہم نے کبھی ماضی میں ان کی ایسی کوئی شکایت بھی نہیں سنی تھی، اس لئے ہم اسے پی گئے اور ویب سائیٹ پر کوئی خبر نہیں دی، لیکن جب ایک اوربڑے چینل کے اینکر نے اس معاملے کو اسٹیٹس کا درجہ دیا تو ہماری ان اینکر سے بات ہوئی اور کافی معاملات سامنے آئے۔اس لئے ہم نے بھی اس کا ذکر کرڈالا۔۔ ورنہ ہماری کوشش ہوتی ہے، ایسے واقعات نہ ہی بتائے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔
اے آر وائی کا ذکر آیا ہے تو اس کی کچھ مخبریاں مزید سن لیں۔۔ اے آر وائی کے “بڑے صاحب “منگل یعنی بائیس جنوری کو اپنی سالگرہ منارہے ہیں اور پپو نے اطلاع دی ہے کہ وہ اس بار اپنی سالگرہ سنگاپور میں ایک “کروز” پہ منائیں گے، ایسی لگژری کشتی جس میں دنیا بھر کی تفریحات موجود ہوں گی،ٹھیک ٹھاک خرچہ بھی ہوگا۔ اس سالگرہ میں شرکت کے لئے کراچی سے اپنے معروف اینکرز، فنکاروں اور اہم شخصیات کو بھی مدعو کیاگیا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ میڈیا انڈسٹری بحران کی زد میں ہے، ہر طرف چھانٹیاں،برطرفیاں اور تنخواہوں میں کٹوتیاں ہورہی ہیں، یہ سب کچھ اے آر وائی میں تو نہیں ہورہا لیکن تنخواہوں میں تاخیر اور تنخواہوں کا ایک عرصے سے نہ بڑھایاجانا بھی ورکرز کا مورال ڈاؤن کرنے کا باعث بناہوا ہے، اگر وہ اپنی اس پرتعیش سالگرہ کا تخمینہ نکال کر اس پر آنے والے اخراجات کو اپنے ورکرز میں بطور بونس تقسیم کردیتے تو ثواب کا ثواب ہوتا اور ورکرز کا بھی مورال بڑھ جاتا۔۔ پی سی بی کی ویب سائیٹ بتارہی ہے کہ آپ نے پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی ٹیم ڈالی اور سات ملین ڈالر کا نقصان بھی کرڈالا۔۔سات ملین ڈالر یعنی سترلاکھ ڈالر اگر پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو تقریبا ایک ارب یا اس سے زائد بن جاتے ہیں،اگر یہ ساری رقم اپنے ورکرز پر خرچ کردیتے تو کیا حرج تھا؟؟ پپو تو صرف مشورہ ہی دے سکتا ہے۔۔ باقی آپ اپنی مرضی کے ” مالک” ہیں۔۔۔ مالک پہ یادآیا، اے آر وائی کے ایک مشہور پروگرام سرعام کے پرڈیوسر کو نکال دیاگیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ پروگرام کے اینکر کو بھی انتظامیہ کی جانب سے وارننگ دی گئی ہے کہ برائے کرم ذاتی پروموشن کے بجائے پروگرام پر توجہ دی جائے۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ معاملہ اس وقت بگڑا جب ایک “بڑا ایوارڈ” سرعام والوں نے جاکر لیا اور اس کا کریڈٹ ادارے کو نہیں دیا۔۔اے آر وائی کے حوالے سے باتیں تو اور بھی بہت سی ہیں لیکن فی الحال اسی پر اکتفا کریں ورنہ اس بار کا سینہ بہ سینہ ۔۔اے آر وائی نامہ بن کر رہ جائے گا، اور دیگر چینلز کی مخبریاں ماری جائیں گی۔۔
جیسا کہ ہم نے اے آر وائی کے بڑے صاحب کی پرتعیش سالگرہ کے بارے میں آپ کو بتایا، میڈیا بحران کے دنوں میں سارا بحران صرف ورکرز کے لئے ہی لگ رہا، مالکان کی عیاشیاں اور ان کے اللے تللے ویسے ہی جاری ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ایک بڑے چینل کے مالک کے گھر میں ٹوٹل تین افراد رہتے ہیں جب کہ ان کے ملازمین کی تعداد پینتالیس ہے، ان میں ایک ملازم صرف اس کام کے لئے رکھا گیا ہے کہ وہ شام کو جب بھی گھروالوں کا موڈ ہوتو چناچاٹ بنا کر دے۔۔ اسی طرح ایک چینل کے مالک جس چینل نے گزشتہ سال ہی جنم لیا ہے اور اب تک اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اس چینل کے مالک نے اسلام آباد میں نئی شفٹنگ کی ہے، پہلے وہ اسلام آباد میں جس گھر میں رہتے تھے اس کا کرایہ چارسے پانچ لاکھ روپے ماہانہ تھا اب جس گھر میں شفٹ ہوئے ہیں اس کا ماہانہ کرایہ سترہ سے اٹھارہ لاکھ روپے ہے۔۔۔ایک چینل کی مالکہ اور لاہور کے ایک چینل کے مالک صرف اور صرف بوئنگ طیارے میں سفر کرتے ہیں، انہیں اگر لاہور سے اسلام آباد جانا ہوتو بوئنگ طیارے میں ہی جاتے ہیں یہ طیارے چونکہ پاکستان کی کسی ائرلائن کے پاس نہیں، پی آئی اے کے بوئنگ طیارے انٹرنیشنل پروازوں کے لئے ہوتے ہیں، اس لئے یہ ایمرٹس ائرلائن پہ سفر کو ترجیح دیتے ہیں جو انہیں لاہور سے اسلام آباد پہنچانے سے پہلے دبئی لے جاتی ہے، اس طرح ایک بار لاہور سے اسلام آباد آنا جاناانہیں فضائی کرائے کے حساب سے ساست لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔۔۔یہ حال ہے مالکان کا۔۔ دو چینل کے مالکان سارا دن اسلام آباد میں وزیراعظم کے آس پاس پائے جاتے ہیں ایک کو تو عہدہ بھی دے دیا گیا لیکن خود ان کے چینلز کا یہ حال ہے کہ وہاں تنخواہیں وقت پر نہیں مل رہیں،اگر یہ لوگ وزیراعظم کو میڈیا بحران حل کرنے کے لئے نادر و نایاب مشورے دے رہے ہیں اور حکومت کےک لئے میڈیائی حکمت عملی بنارہے ہیں تو اللہ پاک پھر میڈیا انڈسٹری پر رحم کرے، کیوں کہ جب ان سے اپنے چینلز کے معاملات کنٹرول نہیں ہوپارہے تو یہ دیگر چینلز اور میڈیا کو کیسے قابو کریں گے؟؟؟اس حوالے سے مزید بھی تفصیل پپو نے دی ہے جو ہم پھر کبھی آپ کو بڑی تفصیل اور باریکیوں کےساتھ سمجھانے کی کوشش کریں گے۔۔
کچھ روز پہلے کراچی کے پی اے سی سی میں سائبرکرائم کے حوالے سے ایک ورکشاپ تھی، جس میں شرکت کی وہاں کسی دوست نے ایک وڈیو بنائی مختصر سے انٹرویو میں اچانک سوال کیا کہ آج کی کوئی بریکنگ دیں۔۔ جس پر انہیں بتایا کہ سما کا سودا ہوگیا، کیونکہ پپو نے اسی روز صبح فون پر ون لائن ٹپ دی تھی، کہا کہ تفصیل جمع کررہا ہوں۔۔ اس لئے تفصیل ہم گول کرگئے۔۔ یہ وڈیو ہم نے اپنے پیج پہ بھی شیئر کی۔۔ اور اتنی مقبول ہوئی کہ پریس کلب میں بڑے جید صحافیوں نے اس کی تفصیل کریدنے کی کوشش کی، چونکہ ہم سارے معاملے سے لاعلم ہی رہتے ہیں اس لئے گردن دائیں سے بائیں گھماتے ہوئے تفصیل بتانے سے معذرت کرتے اور کہہ دیتے کہ پپو نے بتائی نہیں، جیسے ہی بتائی ضرور شیئر کرینگے۔۔پپو نے اس حوالے سے زیادہ تفصیل تو نہیں دی ابھی تک۔۔ لیکن جو کچھ بتایا آپ بھی سن لیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ سما کے کئی شیئرہولڈرز ہیں، جن کا حساب کتاب کیا جارہا ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ سما فروخت کردیاگیاہے، اور ڈیل یہ ہوئی ہے کہ اسٹاف کم کرکے، اخراجات کم کرکے اسے ایک منافع بخش ادارہ بنا کر نئے مالک کے حوالے کیا جائے گا،اس سلسلے میں اگست تک کا ٹائم لیا گیا ہے۔۔ پپو کے مطابق جس طرح سی این بی سی کو جاگ بنا کر اس سے اخراجات کم کرکے گورمے کے حوالے کیاگیا تھا اسی طرح سماکے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ تقریبا ڈیڑھ سو افراد کو زبانی طور پر کہاگیا ہے کہ یہ ان کا ادارے میں آخری مہینہ ہے اس لئے اپنا بندوبست کرلو، مختلف شعبہ جات کے سربراہان نے لسٹ کے مطابق اپنے اپنے شعبوں میں یہ زبانی احکامات نکالے جانے والوں تک پہنچادیئے ہیں۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ ڈائریکٹر نیوز فرحان ملک نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ نیوز سے اگر برطرفیاں ہوئیں تو وہ مخالفت کرینگے اور اسٹینڈ لیں گے۔۔ایسا ہی موقف کچھ عرصہ پہلے ندیم رضا صاحب نے جاگ میں لیا تھا پھر استعفا دے کر چلے گئے۔۔ پپو کے مطابق فرحان ملک کی بنیادیں بھی کمزور پڑچکی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں سما کے اندر خرم باری کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ فرحان ملک خاموشی سے برطرفیوں کا تماشا دیکھتے ہیں یا پھر اسٹینڈ لے کر خود کر ورکردوست افسر ظاہر کرتے ہیں۔۔فیصلہ اگلے دس دنوں میں ہوجائے گا۔
یہ معاملات اپنی جگہ گزشتہ سال کی بات ہے، یہ سال بھی اتنا پرانا نہیں ہوا نئے سال کا پہلا مہینہ چل رہا ہے۔۔ (یعنی چند ماہ پہلے)جب کراچی میں سینہ بہ سینہ ایک اسٹوری بڑی چلی، پپو نے بھی ہم تک وہ کہانی پہنچائی۔۔ دروغ بہ گردن راوی۔۔۔ چونکہ ہم ان دنوں سینہ بہ سینہ نہیں لکھ رہے تھے اس لئے یہ کہانی آپ تک نہیں پہنچاسکے۔۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ بروقت نہ پہنچاسکیں۔۔ کراچی کے میڈیائی حلقوں میں سینہ بہ سینہ گھومنے والی سینہ گزٹ کہانی کچھ یوں تھی کہ ۔۔۔بتایاجاتا ہے کہ شہرلاہور کے ایک چینل کے سربراہ کو اس وقت سرعام ذلت و رسوائی کا بوجھ اٹھانا پڑا اور (لوگوں کے خیال میں) ہزیمت اٹھانا پڑی جب کراچی کے ایک فائیواسٹار ہوٹل کی انتظامیہ نے ان کی غیرپیشہ ورانہ حرکتوں کا سختی سے نوٹس لیا ، ہواکچھ یوں تھا کہ۔۔۔۔۔یہ سربراہ صاحب اپنے چینل کی چالیس عدد پوسٹوں کیلئے خواتین صحافیوں کے ’’انٹرویو‘‘ کرنے کراچی تشریف لائے اور ایک فائیو اسٹار عالیشان ہوٹل میں مقیم ہوئے ۔۔۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ ہوٹل کا بورڈ روم بک کرواتے اور پیشہ ورانہ معیار کے تحت انٹرویو کنڈکٹ کرتے ۔۔۔ہوٹل انتظامیہ اس وقت خواب غفلت سے جاگی جب انٹرویو دے کر فارغ ہوئی خواتین میں سے تین عدد نوجوان خواتین نے الگ ایگ وقفے وقفے سے نیچے ہوٹل ریسپشن پر آ کر ہوٹل انٹطامیہ کو سخت سست کہا کہ ذرا دیکھئے تو سہی کہ ان کے ہوٹل میں عین ان کی ناک کے اوپر والے کمرے میں کس بیہودگی کا بازار گرم ہے ۔ نوجوان صحافی خواتین نے بتایا کہ انٹرویو ہوٹل کے اس ڈبل بیڈ ڈیلکس روم میں لیے جا رہے ہیں جو چینل کےسربراہ موصوف نے اپنی رہائش اور اوڑھنے بچھونے اور کچھ ناگفتہ بہ سرگرمیوں کیلئے لے رکھا ہے ۔۔ان شکایات پرہوٹل انتظامیہ کیلئے چونکنے اور سیخ پا ہونے کی دو واضح وجوہات تھیں ۔۔ ایک تو یہ کہ ایسے انٹرویوز کیلئے بورڈ روم نہ لے کر ہوٹل کو آمدنی سے محروم رکھا گیا اور دوئم یہ کہ یہ انٹرویو جس ڈبل بیڈ فضا میں لیے جا رہے تھے وہ بیک وقت غیرپروفیشنل، گھناؤنی اور اشتہا انگیز تھی اور ہوٹل کیلئے بدنامی کا باعث بھی ۔۔ لڑکیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ دورانِ انٹرویو، چینل کے سربراہ صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کر کبھی عین سامنے بچھے ڈبل بیڈ پر نیم دراز ہو جاتے تھے، کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال سنوارا کرتے تھے اور کبھی چپل پہن کر واش روم کی یاترا کر آتے تھے ۔ تمام امیدواران کو بوجہ سرِ شام بلایا گیا تھا ۔۔۔ پھر ہوایوں کہ حالات کا علم ہوتے ہی فائیو اسٹار ہوٹل انتظامیہ کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور سربراہ چینل کو سختی کے ساتھ کہاگیا کہ وہ انٹرویوز کا سلسلہ روک دیں، لیکن موصوف نے اپنی ’’پہنچ‘‘ کا حوالہ دے کر ہوٹل انتظامیہ کا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ پھر چند ہی منٹ بعد سیکورٹی گارڈز کی معیت میں انتظامیہ ڈنڈا ڈولی کر کے چینل کے سربراہ کو زبردستی کمرے سے نکال کر نیچے لابی میں لے کر آئی ۔۔۔ اور کچھ تو تو میں میں کے بعد باقی ماندہ انٹرویو لابی میں بیٹھ کر دلوائے گئے، سینہ گزٹ چلنے والی اس اسٹوری میں یہ بھی بتایاگیا کہ یہ وہ صاحب ہیں جنہیں چند برس پہلےایک بڑے چینل کی خاتون نیوز اینکر کی جانب سے عائد اس الزام کے ثابت ہونے پر نکالا گیا تھا کہ انہوں نے ان خاتون نیوز اینکر کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا ۔ یہ اسٹوری چونکہ سینہ گزٹ میڈیا کے حوالے سے اہم لوگوں میں چل رہی تھی اس لئے پپو نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی بلکہ پوری اسٹوری ہمارے گوش گزار کردی تھی جسے ہم نے نوٹ کرلیاتھا کہ جب بھی سینہ بہ سینہ لکھیں گے اسے ضرور لکھیں گے۔۔واقعہ پرانا ہے لیکن دلچسپ تھا اس لئے پیش کیا، آئندہ کوشش کرینگے کہ اتنے پرانے واقعات پیش نہ کئے جائیں۔۔
پپو کی مخبریاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔۔۔ اسی ہفتےمزید مخبریوں اور انکشافات کےساتھ پھر حاضری دیں گے۔۔ جب تک کے لئے اپنا خیال رکھیئے اور ہمیں اجازت دیجئے، علی عمران جونیئر۔