دوستو، ساس کے داماد کے گھر آ کر براجمان ہو جانے کے متعلق درجنوں لطیفے مشہور ہیں، بعض لوگوں کے لیے سچ بھی ہوں گے۔ اب اس برطانوی شہری کو ہی دیکھ لیں جو اپنے ساس کے آئے روز اپنے گھر آ جانے سے اس قدر تنگ آ گیا کہ گھر میں ایک خوفناک مکڑی پال لی، کیونکہ اس کی ساس مکڑی سے بہت ڈرتی ہے۔ ’’دی مرر‘‘ کے مطابق اس شخص نے انٹرنیٹ پر بتایا ہے کہ ’’میری ساس آئے روز ہمارے گھر آ جاتی اور کئی کئی دن تک وہیں رہتی۔ اسے ہماری پرائیویسی کا ذرا بھی خیال نہیں ہوتا تھا۔ایک روز اس نے فون کیا کہ وہ ہمارے گھر آ رہی ہے۔ اس پر میں بہت پریشان ہو گیا اور اسے روکنے کی ترکیب سوچنے لگا۔ مجھے یہ واقعہ معلوم تھا کہ ایک بار ایک مکڑی نے میری ساس پر حملہ کر دیا تھا اور اس مکڑی کے کاٹنے سے وہ دو دن تک شدید تکلیف میں مبتلا رہی تھی۔ تب سے وہ مکڑی سے بہت ڈرتی ہے۔ یہ واقعہ یاد آتے ہی میں اچھل پڑا اور ایک مکڑی خرید کر گھر لے آیا۔ میں نے اس مکڑی کے لیے لیونگ روم میں ایک گھروندا بنایا اور اس میں اسے چھوڑ دیا۔ میں نے مکڑی کے متعلق اپنی بیوی کو بتادیا تاہم اسے یہ نہیں بتایا کہ اسے گھر میں پالنے کا مقصد کیا ہے۔ جب سے یہ مکڑی گھر میں آئی ہے میری ساس ہمارے گھر نہیں آتی، اور اگر کبھی آئے بھی تو کچھ دیر ٹھہر کر واپس چلی جاتی ہے۔
آپ لوگ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ آج ہماری اوٹ پٹانگ ساس کے حوالے سے ہوں گی۔۔ ایک شوہر سے کسی نے پوچھا۔۔اگر شیر تمہاری ساس اور بیوی پر حملہ کر دے تو تم کسے بچاؤ گے؟شوہر نے بڑے بھولپن سے جواب دیا۔۔ ظاہر ہے شیر کو۔۔ سنا ہے لاہور میں ایک ساس نے داماد کو ولیمے میں کلاشنکوف تحفہ میں دی،کہنا صرف یہ تھاجب بیٹی دیدی تھی تو کلاشنکوف دینے کی کیا ضرورت تھی؟؟۔۔ساس بہو آپس میں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی تھیں۔۔ بیٹا یہ منظر دیکھ کر خاموشی سے مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔اچانک باپ گھر میں داخل ہوا اور بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے بولا۔۔تمہیں شرم نہیں آتی، ماں اور بیوی لڑ رہی ہیں اور تم دور کھڑے مسکرائے جا رہے ہو۔۔بیٹا بولا۔۔ ابا جان، مجھے لڑائی کا تو بہت افسوس ہے لیکن اس طرح مجھے امی اور بیوی کے گزشتہ حالات زندگی کے بارے میں بہت قیمتی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔۔۔بیوی شوہر سے لڑ رہی تھی۔ شوہر نے تنگ آکر ساس کو ایس ایم ایس کیا۔ آپ کی پراڈکٹ میری ضرورت کے مطابق نہیں۔ میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ اور پراڈکٹ واپس لوٹا کر تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہوں۔ ساس نے تھوڑی دیر بعد جواب دیا۔۔ وارنٹی ختم ہو چکی ہے۔ ریفنڈ یا تبدیلی کی کوئی پالیسی نہیں۔ پراڈکٹ کی پرفارمنس بہتر کرنے کے لیے بالوں سے پکڑ کر دن میں دو دفعہ دھلائی کریں۔ اب ویسے بھی کمپنی نے نیا مال بنانا بند کر دیا ہے۔
باباجی کی پوری زندگی شاید ہنسی کا پٹارہ ہے، جب بھی کوئی واقعہ سناتے ہیں، ہنس ہنس کر ہماری پسلیوں میں درد ہونے لگتا ہے۔۔ایک دن فرمانے لگے۔۔یار کل خوشگوار موڈ میں اپنی اکلوتی زوجہ ماجدہ سے میں نے کہا ۔۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ تم مجھ پر بالکل شک نہیں کرتی۔۔وہ کہنے لگیں ۔۔ شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے،مجھے پورا یقین ہے کہ تم فل چالو آدمی ہو۔۔ساراموڈ ہی چوپٹ ہوگیا ایسا بھیانک جواب سن کر۔۔ہنستے ہنستے ہم نے باباجی سے سوال کرڈالا۔۔کبھی زوجہ ماجدہ سے پھڈا بھی ہوا؟؟ کہنے لگے۔۔ٹی وی دیکھ رہا تھا، زوجہ ماجدہ میرے پاس آ کر بیٹھیں اور پیار سے پوچھنے لگیں کہ ٹی وی پہ کیا ہے؟
میں نے کہا۔۔دھول مٹی۔۔اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔شادی کی سالگرہ پر زوجہ ماجدہ فرمانے لگیں۔۔ مجھے ایسی جگہ لے جائیں جہاں ہم مدتوں سے نہیں گئے۔میں اسے اپنے والدین سے ملانے لے گیا۔اور پھر لڑائی شروع ہو گئی۔۔۔ ایک رات زوجہ ماجدہ نے فرمائش کی۔۔ مجھے مہنگی جگہ ڈنر کرائیں۔میں پٹرول پمپ لے گیا۔اور پھر لڑائی شروع ہو گئی۔۔ زوجہ ماجدہ نیا سوٹ پہن کر آئینے میں دیکھ رہی تھیں۔ کہنے لگیں ماڈل پہ کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ میں تو کتنی موٹی، بھدی اور بے ڈول لگ رہی ہوں۔ پلیز میری تعریف میں کچھ کہیں تاکہ میرا موڈ خوشگوار ہو۔میں نے کہا،تمہاری نظر بڑی تیز اور پرفیکٹ ہے۔اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔۔سبزی والے نے خراب سبزی دی۔زوجہ ماجدہ کہنے لگیں کہ جب پتا ہے کہ یہ کھلا دھوکہ دیتا ہے پھر بھی بار بار اسی کے پاس جاتے ہیں۔میں نے کہا،تمہارے میکے بھی تو جاتا ہوں۔اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔
شوہرشادی کے بعد ساس بہو کے درمیان بھی سینڈوچ بن جاتا ہے۔ بیوی کی طرفداری اسے زن مرید کا خطاب دلواتی ہے تو ماں کی طرفداری پر بیوی میکے پہنچ جاتی ہے۔ غرض کہ زندگی سانپ والے کھیل کی طرح بن جاتی ہے جس کا ایک لیول عبور کر بھی لو تو دوسرا لیول اس سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔کسی گاؤں میں ایک لڑکی دلہن بن کے آئی۔ سارے گاؤں کی خواتین حسب روایت اُسے دیکھنے آتیں اور بتاتیں کہ مائی رحمتے سے ذرا بچ کے رہنا۔۔وہ پوچھتی مائی رحمتے ہے کون؟ تو جواب ملتا ملو گی تو خود پتہ چل جائے گا۔ کچھ دیر میں ہی شور ہوا اور ایک بوڑھی عورت لڑتی جھگڑتی گلی میں آئی۔۔پتہ چلا کہ یہ مائی رحمتے ہے۔ اور ہر وقت لڑنا اس کا کام ہے۔ گاؤں کا کوئی بچہ بوڑھا مرد عورت اس کی لڑائی کی زد سے نہیں بچ سکتا۔ حتیٰ کہ جانوروں سے بھی اس کی لڑائی تھی۔ گاؤں کا کوئی گائے بھینس بیل سنڈھا کتا بلی گھوڑا گھوڑی اس خاتون کا سامنا نہیں کرتا تھا سب سے لڑ چکی تھی۔۔مائی رحمتے نے دلہن کو دیکھا ناک بھوں چڑھائی اور بولنے ہی لگی تھی کہ دلہن بول اُٹھی۔۔ ’’اے مائی تیرا لڑن دا ارادہ اے تے پہلے اصول طے کر لے۔ جے تے اک دن دی لڑائی لڑنی اے تے آ جا ہُنے قصہ مکائیے۔ جے چھ مہینے لڑنا ای تے میرے نال رل کے کنک بیج لا۔ مربعے آندیاں جاندیاں لڑیا کراں گے۔ جے سال لڑنا ای تے رل کے زمین ٹھیکے تے لیندے آں۔ کدی پانی دی واری تے لڑاں گے کدی بجائی تے کدی واڈیاں تے۔ اک سال بعد جان چھُٹے گی دوواں دی۔۔تے جے تیرا خیال ساری عمر لڑن دا اے تے میرے کھسم نال ویاہ کرا لے سوکن بن جا میری۔ نالے وسّاں گے نالے لڑاں گے‘‘۔۔سنا ہے اب مائی رحمتے کسی سے نہیں لڑتی۔۔