تحریر: محمد بلال غوری۔۔
بھارت اور پاکستان میں آج کل سیما حیدر کے چرچے ہیں۔بھانت بھانت کے تبصروں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔گاہے سوچتا ہوں اس معاملے کو غیر معمولی پذیرائی کیوں مل رہی ہے کیا ہمارے ہاں سیماغلام حیدرپہلی شادی شدہ عورت ہے جو اپنے شوہر کو چھوڑ کر آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی اور عدت پوری کئے بغیر بیاہ رچالیا؟تو کیا اس کے بھارت جانے ،مذہب تبدیل کرنے اور ایک ہندو لونڈے کے ساتھ شادی کرنے سے ہماری انا کو ٹھیس پہنچی ہے؟غیرت کایہ عالم ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں نے اسے واپس پاکستان نہ لانے کی صورت میں مندروں اور ہندو کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔حالانکہ جب ہندو لڑکیاں مذہب تبدیل کرکے مسلمان لڑکوں سے شادی کرتی ہیں تو راوی چین ہی چین لکھتا رہتا ہے۔
چاربچوں کی ماں سیما رندجسے کوئی آئی ایس آئی کی ایجنٹ قرار دے رہا ہے تو کوئی ’’را‘‘ کی ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ اس کی کہانی کو ہم مذہب اور ملک کی اساطیرسے باہر نکل کر محض ایک انسانی المیے کے طورپر دیکھیں اور معاشرتی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں۔تقریباً90لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت ان محنت کشوں کی ہے جو اپنے بیوی بچوں کا مستقبل سنوارنے اور انہیں بہتر زندگی فراہم کرنے کی خاطر کام کرنے پردیس گئے ہوئے ہیں ۔اصولاً تو میں اس حق میں نہیں ہوں کہ کوئی شخص شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کو پاکستان چھوڑ کر طویل عرصہ کیلئے بیرون ملک جائے ۔لیکن ہمارے ملک میں معیشت کی مخدوش صورتحال کے باعث بہت سوں کویہ کڑوی گولی نگلناپڑتی ہے۔سمندرپارپاکستانی ،بالخصوص عرب ممالک میں مزدوری کرنے والے افراد میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو اپنی مرضی اور شوق سے گئے ہوں گے ورنہ بیشتر افراد تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر دیار غیر کا رُخ کرتے ہیں ۔لیکن اپنے شریک حیات کی غیر موجودگی میں خواتین وہ گل کھلاتی ہیں جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی ۔یقیناً پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور اس بات کا اطلاق سب پر نہیں کیا جاسکتا مگر سیما حیدر جیسے واقعات اکثر پیش آتے ہیں ۔کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ شوہر برسہا برس بیرون ملک کماتا اور اپنے گھر پیسے بھجواتا رہاجب عمر ڈھلنے پر مستقل پاکستان واپس آنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں اس کیلئے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔جسے وہ اپنی بیوی سمجھ رہا تھا،اس نے تو عدالت کے ذریعے خلع حاصل کرکے بہت پہلے کسی اور کے ساتھ بیاہ رچالیا تھا اور محض پیسے بٹورنے کیلئے اس کی بیوی بن کر رہ رہی تھی۔ایسی صورت میں وہ خاتون مال و دولت سمیٹ کر رفو چکر ہوجاتی ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر آشنا کے ساتھ مل کر اس راستے کے پتھر کو ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔فر ض کریں ،کسی پردیسی کو اس قدر بھیانک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا توبھی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ضرور چھن جاتاہے۔انسان اپنے بچوں کیلئے بیرون ملک کی سختیاں برداشت کرتا رہتا ہے مگر باپ کی غیر موجودگی میں اولاد کی تربیت ٹھیک طرح نہیں ہوپاتی ،وہ بری صحبت کے باعث بگڑ جاتے ہیں ۔کئی گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ بچے اپنے والد سے متنفر ہوجاتے ہیں کیونکہ مائیںان کے ذہنوں میں یہ زہر گھول دیتی ہیں کہ تمہارے باپ کو تو نہ ذمہ داری کا احساس ہے اور نہ ہی کسی کی کوئی پروا ،اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا اور خود بیرون ملک عیش کررہا ہے ۔آپ کسی بھی پردیسی سے بات کرکے دیکھ لیں ،اس سے ملتی جلتی دردناک کہانیاں سننے کو ملیں گی۔
کوئی بھی عاقل ،بالغ عورت خواہ اس کی شادی ہوچکی ہے،زندگی کے کسی بھی موڑ پر اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے۔وہ جب چاہے ،خلع لے سکتی ہے ،کوئی اور پسند آجائے تو اس سے شادی کرنے سےاسے کوئی نہیں روک سکتا۔وہ چاہے چار بچوں کی ماں ہی کیوں نہ ہو،اسے اپنے مستقبل سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہئے۔اگر اسے یہ بات گوارہ نہیں کہ اس کا شوہر دور رہے تو وہ اس بنیاد پر خلع لے سکتی ہے لیکن جو شخص اس کے ناز اُٹھانے اور گھر کا خرچہ چلانے کیلئے پردیس میں مفلوک الحال زندگی گزار رہا ہے ،یہ سوچ کر ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتا کہ بچوں کی فیسیں ادا کرنی ہیں ،اپنا گھر بنانا ہے ،بیوی کو زیور خرید کردینا ہے ،اسے دھوکے میں رکھنا ،اس کی غیر موجودگی میں کسی آشنا سے محبت کا دم بھرنا اور جب وہ زندگی کے کئی قیمتی برس تیا گ کر واپس آئے تواس کی ساری دولت ہڑپ کرنے کے بعد کوئی بھونڈا سا الزام لگا کر اس سے دامن چھڑا لینا،یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے اور اسے کسی حساب سے جائز قرار نہیں دیاجاسکتا۔مثال کے طور پر سیما حیدر جسے اس کے شوہر غلام حیدر جاکھرانی نے گھر خریدنے کیلئے پیسے دیئے ،جو ہر مہینے باقاعدگی سے اسے گھر کے اخراجات کیلئے رقم بھجواتا رہا،ویڈیو کال پر بات کرنے کیلئے اچھے کیمرے والا موبائل فون لیکردیا ، وہ پب جی گیم کھیلتے ہوئے اس کے ساتھ کھلواڑ کرگئی اور نین لڑانےکے بعد ایک لونڈے کودل دے بیٹھی۔بھارت میں کسی رپورٹر نے پوچھا کہ کیا تمہارا شوہر تمہیں پیسے بھجواتا تھا اور تم نےاسے کیوں چھوڑ دیا؟ سیما حیدر نے ترنت جواب دیا،پیسے تو بھجواتا تھا لیکن میری عزت نہیں کرتا تھا۔اس کے جسم پر زخم کے نشان دیکھ کر سوال کیا گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟اس نے اپنے پاس بیٹھے محبوب سچن کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا،یہ پٹائی بہت اچھی کرتا ہے۔جب کبھی لڑائی ہوتی ہے تو یہ مجھے خوب مارتا ہے۔یعنی یہی وہ عزت تھی جو اسے اپنے شوہر غلام حیدر جاکھرانی سے نہیں مل پارہی تھی اور یہ عزت پانے کیلئے اسے فرار ہوکر بھارت جانا پڑا۔ میرا خیال ہے اپنی فیملی کیلئے پردیس کاٹنے والوں کیلئے اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔(بشکریہ جنگ)