سینئر صحافی، اینکرپرسن اور کالم نویس رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ۔۔سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو وی پی این تو غیر شرعی لگتا ہے لیکن بہت سے دیگر ایشوز غیرشرعی کیوں نہیں لگتے؟ ان کا کہنا ہے کہ وی پی این کے ذریعے آن لائن چوری کی جاتی ہے۔ روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔ہمارے علماء کرام کو آن لائن چوری کی فکر ہے‘ لیکن جو سیاسی ایلیٹ‘ سول ملٹری حکمران‘ بیورو کریسی اور دیگر طاقتور طبقات کھلے عام چوری کرتے ہیں اور پیسہ بیرونِ ملک ٹرانسفر کرتے ہیں اس کی کیوں فکر نہیں ؟ اس وقت ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں حالانکہ اسلام واحد مذہب ہے جس نے چودہ سو برس پہلے عورت اور مرد پر تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔ مطلب اس ملک میں حکمرانوں کے کرتوتوں سے کسی کو مسئلہ نہیں۔ وہ منی لانڈرنگ کریں‘ لندن میں جائیدادیں خرید لیں‘ دبئی میں گھڑیاں بیچیں‘ جنیوا کے بینکوں کو پاکستان سے ڈالروں کی شکل میں لیے گئے کمیشن سے بھر دیں‘ کینیڈا میں پاکستانی افسران لاکھوں ڈالرز کے گھر خرید لیں‘ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے عہدے بیچے جائیں‘ پاکستان سے مال کما کر دنیا بھر میں جائیدادیں بنا لی جائیں‘ کبھی نظریاتی کونسل کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ بلکہ ان تمام حکمرانوں اور ایلیٹ کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ اس ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہو‘ ظلم تشدد ہو‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں کسی کو کچھ بھی غیر شرعی نہیں لگا۔ الٹا ہر حکمران کو ہر دور میں ایسے علما مل جاتے ہیں جو ان کے اقتدار کو مذہبی ٹچ دینے کے لیے فتوے بھی دیتے ہیں‘ ان کے گھروں اور محلوں پر محفلیں بھی منعقد کرتے ہیں۔میرا اعتراض ایک ہی ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے اس ملک میں سوشل میڈیا یا نئی ٹیکنالوجی ملک کی دشمن ہے تو سیدھا فیصلہ کریں اور سب کچھ بند کر دیں۔ آپ ایک انتظامی یا قومی فیصلہ لے لیں۔ اسے مذہبی ٹچ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر دنیا خلیفہ معتصم باللہ کے دریا کنارے مناظرے کو بھول گئی تھی تو دوبارہ اسے یاد دلانے کی کیا ضرورت تھی کہ آٹھ سو سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں‘ جہاں قلعے کے باہر ہلاکو خان بغداد کی تباہی کا منصوبہ لے کر کھڑا تھا اور اندر خلیفہ کوے کے حرام یا مکروہ کا فیصلہ علما سے کرا رہا تھا۔ ان آٹھ سو برسوں میں کچھ نہیں بدلا‘ نہ خلیفہ کی سوچ بدلی‘ نہ علما بدلے اور نہ حلال حرام کے فتوے۔