تحریر: خرم علی عمران
سوشل میڈیا پرنیز پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر بھی ابھی تازہ ہی خبرکہیں گے اس کو کہ چند روز پہلے ایک بچے نے خراب رزلٹ آنے پروالدین کی سرزنش کے ڈر اور خوف کا شکار ہونے پر اور شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی اور دریا میں ڈوب گیا۔ ایسی بے شمار مثالیں اور خبریں ہر ایک کے علم میں اکثر و بیشتر آتی رہتی ہیں جن میں لوگوں نے ڈر کو خود پر اتنا اوڑھ لیا اور طاری کرلیا کہ اپنا ناقابل تلافی نقصان کر بیٹھے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر ذی روح کو سابقہ پڑتا ہے کسی کو کم کسی کو زیادہ یعنی ڈر،خوف اور گھبراہٹ۔ ڈر سے مت ڈریں، ڈر تو ایک طرح سے آپ کا دوست آپکا رہبر آپ کا ساتھی ہے۔ بظاہر ایک عذاب ،پریشانی اور بیماری نظر آنے والا خوف ، ڈر یا گھبراہٹ بہت سے فائدوں کا حامل ہوتا ہے اور آپ کو بہت سے نقصانات اوربرائیوں سے بچالیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی بہت سی اقسام بھی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مذہبی اور غیرمذہبی نقطہ ء نظر سے ڈر کے بارے میں کیا کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ پہلے خوف کی اقسام دیکھتے ہیں۔۔ ڈر یا خوف کئی قسم کا ہوتا ہے، مذہبی اعتبار سے مثلا اللہ تعالی کا خوف، اوریہ جسے حاصل ہوجائے سمجھیں کہ وہ دنیا اور عقبی دونوں میں کامیاب ہوجاتا ہے،ایک حدیثِ قدسی کا مفہوم کچھ یوں ہے ، “اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ میں دو خوف ایک جگہ جمع نہیں کرتا جو دنیا میں مجھ سے ڈرے گا میں آخرت میں اسے نہیں ڈراؤں گا اور جو دنیا میں مجھ سے نہیں ڈرے گا اسے آخرت میں ڈراؤں گا” تو خوفِ خدا تو دراصل اپنی حقیقت میں ایک نعمتِ عظمی سے کم نہیں اور نصیب والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
پھر مزید چند اقسام میں موت کا خوف، ناکامی کا خوف، انہونی کا خوف، مختلف قسم کے نفسیاتی خوف جیسے ہائیڈرو فوبیا(اس کے مریض کو پانی سے ڈر لگتا ہے)، بلندی کا خوف، اندھیرے کا ڈر وغیرہ نفسیاتی ڈراووں کی چند اقسام ہیں،اسکے علاوہ، مستقبل کا خوف، اب کیا ہوگا، اب کیا بنے گا وغیرہ وغیرہ، جنوں، بھوتوں، چڑیلوں اور بد روحوں کا خوف اور پھر موت کا خوف بھی تو۔۔اب اگر ہم مذہبی نقطہء نظر سے دیکھیں تو ہر قسم کے خوف و ڈر کا تیر بہ ہدف علاج مل جاتا ہے، وہ کیا ہے؟، وہ اللہ تعالی کی ذات عالی اورصفات عالیہ کا یقین اور دھیان کرنا، کہ جو بھی حالات و واقعات ہوں،کامیابی،ناکامی، عزت ذلت، زندگی موت سب اللہ کے ہاتھ میں اور اس کی مرضی کے تابع ہے، چنانچہ مذہبی اور دینی سوچ رکھنے والوں کو بہرحال مختلف اور غیر مذہبی سوچ رکھنے والوں پر یہ ایڈوانٹج، یہ برتری، یہ سہولت تو حاصل ہے ہی کہ انکا یقین و ایمانِ خدا وندی انہیں ہر قسم کے ڈر اور خوف سے بہرحال امن دے دیتا ہے۔ متعدد احادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دین کے اقوال اس پر شاہد ہیں کہ خوفِ خدا اور عشقِ رسول جسے مل گیا اسے سب مل گیا۔
اب آئیے غیرمذہبی یا سیکولر سوچ رکھنے والے انسانوں کی جانب،ان کے لئے نفسیاتی اور ذہنی علوم کے ماہرین نے بہت سی ترکیبیں اورعلاج لکھے ہیں،کچھ خوف تو ایسے ہیں کہ وہ باقاعدہ ذہنی امراض میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے علاج کے لئے طویل نفسیاتی سیشنز کئے جاتے ہیں اور باقاعدہ دواؤں پر رکھا جاتا ہے اور کچھ ایسے خوف بھی ہیں جو صرف وہم و گمان کے درجے میں ہوتے ہیں اور لایعنی ،تصوراتی اور مضحکہ خیز وجوہات پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں سے مستقبل کا، اندھیرے کا،کچھ براہونے والا ہے قسم کا خوف،جنوں، بھوتوں، چڑیلوں اور بد روحوں کا خوف نمایاں ہیں۔۔ ایسے مریضوں کے لئے نفسیات کی دنیا کا بڑا نام جسے سگمنڈ فرائڈ کے بعد سب سے بڑا ماہر نفسیات سمجھا جاتا ہے، یونگً کہتا ہے کہ اس قسم کے ڈراووں سے بچنے اور ان پرحاوی ہونے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ جو وجہء ڈر ہو اس میں اور زیادہ گھس جاؤ،ڈر غائب ہو جائے گا، مثلا اگر اندھیرے کا خوف ہے تو دل کڑا کرکے ایک دفعہ اندھیری جگہ میں چلے جاؤ کچھ دیر رہو اور پھر دیکھو گے کہ اندھیرے کا ڈر نکل جائے گا۔ اگر کسی شخص سے ڈر لگتا ہے تو بس ایک بار بے خوفی سے چاہے مصنوعی ہی کیوں نہ ہو اس سے بات کرکے دیکھ لو ڈر نکل جائے گا۔ یہ بلکل علاجِ بالمثل یعنی ہومیو پیتھک علاج کی طرح ہے۔ اسی طرح یونگ خود ترغیبی(آٹو سجیشن) کو بھی ایک کامیاب علاج کہتا ہے، یعنی جس چیز کام یا بات سے ڈر لگتا ہواس کے بارے میں خود کو بار بار آہستہ آواز میں کہیں کہ میں اس سے نہیں ڈرتا،میں اس سے نہیں ڈرتااور یہ کام مستقل مزاجی سے کچھ روز تک کرتے رہیں۔
اسی طرح علم نفسیات میں ہپناٹزم بھی شعوری اورلاشعوری ڈراووں اور گھبراہٹوں کے علاج میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے، مگر اس کے لئے ماہر ہپناٹسٹ اور ماہر نفسیات کا ہونا ضروری ہے، وہ آپ کو تنویمی نوم (ہپناٹک سلیپ) میں لے جا کر آپ کے لاشعور سے مطلوبہ خوف کھرچ دیتا ہے، تحلیلِ نفسی بھی کامیاب طریقہءعلاج ہے مگر ذرا دیر طلب ہے۔۔ مگر سب سے بہتر مجھے ذاتی طور پر وہی طریقہ لگتا ہے کہ جس چیز سے ڈر لگے اسے اور زیادہ اختیار کرو اور زیادہ اس میں گھسو اور اپنا ڈر ہمیشہ کے لئے نکا ل دو۔گھبراہٹ بھی ڈر کی ایک قسم ہے اور اکثر و بیشتربدحواسی کا باعث بنتی ہے اور زیادہ شدید شکل میں یہ اپنے شکار کو ڈپریشن یا ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن اس کے بھی فوائد ہیں جناب کہ گھبراہٹ میں مبتلا لوگ زیادہ احتیاط پسند اور چوکنا ہوجاتے ہیں اور حقیقی مسائل کا سامنا کرنے میں یہ چیز ان کے کام آیا کرتی ہے۔ پھر اپنے معمولات میں مثبت تبدیلیاں لاکر اور مفید مشاغل اپنا کر اسے دور کرنے کی کوشش کرنے سے بھی گھبراہٹ اپنے شکار کے لئے کسی نہ کسی شکل میں فائدہ مند ہو ہی جاتی ہے۔ تو ڈر خوٖف یا گھبراہٹ سے مت گھبرائیے بلکہ اسے اپنا دوست سمجھ کر ذرا مفید انداز میں برتنا سیکھئے توزندگی کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔(خرم علی عمران)۔۔