ملازمت سے فارغ ہونے والے صحافی اعظم چوہدری کا کہنا ہے کہ حکمرانوں سےسوال کرنا اس وقت بدترین جرم بن چکاہے، میڈیا پرپابندی کے سوال کاجواب نوکری سےفارغ کرنےکی صورت میں مل گیا۔انھیں پی ٹی وی کے ایک پروگرام کے لیے گورنرہاؤس بلایا گیا تھا اور وہ گذشتہ سال ستمبر سے بہ طور تجزیہ کار کنٹریکٹ پر اپنی خدمات پیش کررہے تھے۔اعظم چودھری نے انگریزی اخبارایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں مطلع کیا گیا کہ پی ٹی وی وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے بعد گورنر ہاؤس سے ایک پینل پروگرام کرے گا، جس میں ان کے ساتھ دو اور سینیر صحافی سجاد میر اور سلمان غنی بھی شریک ہوں گے لیکن پریس کانفرنس کے بعد انھیں زبانی مطلع کیا گیا کہ وہ اب پی ٹی وی کے ساتھ نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ سال سے نشر ہونے والے پروگرام ’باخبر‘کی ابتدائی ٹیم کا حصہ تھے۔پی ٹی وی کی انتظامیہ کے ساتھ ان کی آخری بات چیت کے مطابق وہ سرکاری طور پر باقاعدہ ملازم نہیں تھے کیونکہ انھیں تحریری طور پر کچھ نہیں دیا گیا تھا،وہ کنٹریکٹ پر تھے اور ادارہ ان کی فراغت کی کوئی تحریری اطلاع دینے کا پابند نہیں تھا۔پی ٹی وی لاہور مرکز میں شعبہ حالات حاضرہ کے سربراہ سلمان احمد سے جب اعظم چودھری کی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی پی ٹی وی کے مستقل رکن یا ملازم نہیں رہے اور کئی ہفتے توایسے آئے جب وہ ایک بار بھی پروگرام میں پیش نہیں ہوئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ 29 جون کو ان کی پروگرام میں شرکت اچانک کیوں بند کردی گئی اور کیا وہ اب بھی پی ٹی وی کا حصہ ہیں تو سلمان احمد نے کہا کہ یہ سوال متعلقہ پروڈیوسر کو بھیجا جانا چاہیے۔واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن اپنے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں کے لیے صحافیوں کی بہ طور میزبان یا تجزیہ کار خدمات حاصل کرتا رہتا ہے۔ان کا مشاہرہ بالعموم ان کی افتادِ طبع ،سیاسی ونظریاتی رجحان اور قابلیت کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔بعض پروگراموں کا مشاہرہ طے شدہ ہوتا ہے اور ان میں شرکت کرنے والوں کو فی پروگرام پہلے سے طے شدہ رقم ادا کردی جاتی ہے۔تاہم حکومت یا وزراء کے منظورِ نظر صحافیوں کو بھاری مشاہرے بھی ادا کیے جاتے ہیں اورصدر یا وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں میں بالعموم انھیں ہی کوریج کے لیے ساتھ لے جایاجاتا ہے اور ان غیرملکی دوروں کا صحافیوں کو الگ سے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
سوال کا جواب برطرفی کی صورت ملا، اعظم چودھری۔۔
Facebook Comments