تحریر: منصور آفاق۔۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے لاہور سینٹر کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب اس کا ڈرامہ پوری دنیا پر راج کرتا تھا۔اُس کے ڈرامہ نگاروں کی بڑی اہمیت تھی ۔اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ،اصغر ندیم سید، امجد اسلام اور بے شماربڑے رائٹرز اس کے ماتھے کا جھومر تھے ۔ اچھے لکھنے والوں کوبہت اہمیت دی جاتی تھی۔ میں نے جب اپنا پہلا پنجابی ڈرامہ ’’کی جانڑاں‘‘ لکھا تو اس وقت کے ڈائریکٹر پروگرام محمد نثار حسین نے مجھے باقاعدہ لاہور سے اسلام آباد بلایا اورکہاکہ منصور تمہیںمیں نے صرف یہ کہنے کیلئے بلایا ہے کہ اب تمہیں صرف ڈرامہ لِکھنا ہے۔ محمد نثار حسین پاکستانی ڈرامے کی تاریخ میں ایک بہت اہم نام ہے۔ان کا یہ جملہ میں کبھی بھول نہیں سکتا۔میں نے جب ڈرامہ سریل’’ دنیا‘‘ لکھا جس کی ہدایات نصرت ٹھاکر نے دی تھیں توانہوں نے بھی یہی کچھ کہا مگرمجھے ڈرامہ لکھنا نصیب نہ ہوا۔ دوہزار سترہ میں یوکے سے پاکستان آیا تو اس وقت سرکاری ٹی وی کے چیئرمین عطاالحق قاسمی تھے ۔انہوں نے ڈرامہ سیریل لکھنے کو کہا ۔میں نے ’’نمک ‘‘ کے نام سےاٹھارہ اقساط کا ایک سیریل لکھا جسے چوہدری افتخار ورک نے پروڈیوس کیا۔ایک بارپھر میرے اندر کا ڈرامہ نگار جاگامگر مسلسل نہ جاگ سکا۔
ابھی پچھلے دنوں چوہدری افتخارکا فون آیا کہ میں آج کل پروگرام منیجر ہوں،اگر ممکن ہوتو دفترآئو۔ میں چلا گیا۔عابد حسین جنرل منیجر تھے ۔ان سے بھی ملاقات ہوئی ۔یادوں میں بہت سے چہرے راہداریوں میں گھومتے نظر آئے۔ماضی کے خوبصورت دن آس پاس پھیل گئے۔
پی ٹی وی کے عروج کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔میں جب ڈرامہ سیریل زمین لکھنے لگا تو امجد اسلام امجد نےمجھے گھر بلا کر کہا ۔تم کل کے لڑکے ہو ،تم پرائم ٹائم کا پچاس منٹ کا سیریل کیسے لکھ سکتے ہو۔تمہیں پہلے پنجابی کا پچیس منٹ کا سیریل لکھنا چاہئے ۔پھر پنجابی کا پچاس منٹ کا سیریل ، پھر اردو کا پچیس منٹ کا سیریل ،پھر وقت آئے گا جب تم اردو کا پچاس منٹ کا سیریل لکھو گے مگر افسوس میںنے انہیں یہ جملہ کہہ کر ناراض کردیاتھا کہ ’’امجد صاحب میں معذرت خواہ ہوں، میں نہیں سمجھتا کہ دانش صرف سفید بالوں میں اپنے گھروندے بناتی ہے ‘‘اس وقت آج کے معروف شفیق احمد خان بھی میرے ساتھ تھے ۔
فواد چوہدری جب وزیر اطلاعات بنے تو انہوں نے بھی بلایا کہ پی ٹی وی کوپھر سے زندہ کیا جائے۔میں نے ایک پریزنٹیشن تیار کی اور انہیں لاہور سینٹر میں ہی دی۔جس وقت میں پریزنٹیشن دے رہا تھا۔اسی وقت پی ٹی وی کے ملازمین اپنے حقوق کیلئے باہر نعرے بازی کررہے تھے۔ جب میںواپس جانے لگاتو ڈرامہ پروڈیوسر شوکت چنگیزی سے گیٹ پر ملاقات ہو ئی ان سے یہ اچھی خبر سنی کہ آخرکارملازمین کے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ نئے ایم ڈی ظہور احمد عجب آزاد مرد ہیں ۔انہوں نے ملازمین کی تنخواہوں میںپینتیس فیصد اضافہ کردیا ہے،پنشن سترہ فیصد بڑھا دی،دوران ِ سفر انتقال کر جانیوالوں پر پرائم منسٹر پیکیج لاگو کردیا ہے،ملازمین کے حق میں اور بھی بہت سے بہتر کام کیے ہیں۔پھر ایک دن ملاقات فاروق حیدر سےہوئی جو آج کل ڈائریکٹر پروگرام ہیں تو خبر ہوئی کہ ظہور احمدنے پروگرامنگ کی بہتری کیلئےبڑے احسن اقدامات کیے ہیں۔ کلچر کے فروغ کیلئےپروگرام شروع کرائے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی پرخصوصی توجہ دی ہے۔ غزل گائیکی کے فن کو دوبارہ زندہ کیاہے۔ بہتر ڈرامہ کیلئے مارکیٹ کے مسابقتی نرخ کا اجرا کیا۔کام کرنے والوں کا معاوضہ بڑھا دیا ہے ۔میں نے پی ٹی وی پر وجاہت مسعود کا ایک پروگرام دیکھا تو مجھے بہت اچھالگا۔یہ تو بعد میں علم ہوا کہ ان کی خصوصی توجہ نے اس پروگرام کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ظہور احمد سے صرف نام کی حدتک جان پہچان تھی۔اکمل شہزاد گھمن کا تفصیلی مضمون پڑھ کرلگا کہ یار یہ تومردہ لوگوںکی بستی میں کوئی زندہ آدمی ہے ۔ مظہر برلاس کے کالم سے بھی بہت کچھ معلوم ہوا۔پھر ایک دن احمد عطااللہ کے ساتھ ان سے ملنے چلا گیا وہاں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی سے بھی ملاقات ہو گئی ۔ان سے اس زمانے کی علیک سلیک ہے جب وہ ریڈیو پاکستان کے ڈائر یکٹر جنرل ہوا کرتے تھے ۔وہیں بریگیڈیئر شاہد محمود بھی تشریف لائے ۔آئی ایس پی آر میں میڈیا کے معاملات کو جس احسن انداز میں انہوں نے سنبھالا ہواہے ۔شاید ہی کسی اورنے اتنے بہتر انداز میں یہ کام کیا ہو۔ان سے پاکستانی میڈیا کے موضوع پر بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ظہوراحمد کچھ عرصہ میانوالی میں فلسفہ کے پروفیسر رہے ہیں ۔ میرے استاد گرامی اور میانوالی کےعظیم کالم نگار سید نصیر شاہ سے ان کا بہت دوستانہ تعلق تھا۔ان کے حوالے سے بھی ان سے بڑی باتیں ہوئیں ۔فارسی زبان اور موسیقی پر ظہور احمد کی دسترس حیران کن ہے انہوں نے ایک غزل سنائی جس میں کئی شعر فارسی زبان میں کہے ہوئے تھے اور بہت لاجواب اشعار تھے بلکہ پوری غزل اتنی شاندار تھی کہ میرے دل نے کہا چلو اسی زمین میں ہم بھی غزل کہتے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔