تحریر:علی احمد ڈھلوں
الحمد اللہ ! پاکستان نے ارشد ندیم کے توسط سے 40سال بعد گولڈ میڈل جیتا، اس سے پہلے 1984ءمیں پاکستان ہاکی نے قوم کو طلائی تمغہ دلوایا تھا، اُس کے بعد تو جیسے پاکستانیوں نے محنت کرنا ہی چھوڑ دی۔ بلکہ گزشتہ (ٹوکیو) اولمپکس میں تو دنیا بھر میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ پاکستان دنیا کا واحد سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ، جس نے ایک تمغہ بھی حاصل نہیں کیا۔ لیکن ارشد ندیم نے اس بار ہر طرف سے مایوس قوم کے اندر روح پھونک دی ہے، انہوں نے اس سے 92.97 میٹر کی ریکارڈ تھرو پھینک کر ورلڈ ریکارڈ اور اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا۔ اگر ہم اولمپک کی پاکستانی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو ملک کو 1947میں آزادی ملی، اور صرف ایک سال بعد، 1948میں، پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم نے لندن میں سمر گیمز میں اولمپک میں قدم رکھا۔ اس کے بعد کے سالوں میں، پاکستان نے اولمپکس میں ہاکی کے کھیل پر غلبہ حاصل کرنا جاری رکھا۔ ٹیم نے 1960، 1968اور 1984کے کھیلوں میں گولڈ میڈل جیت کر دنیا کی اعلیٰ ہاکی ممالک میں سے ایک کے طور پر اپنی ساکھ کو مستحکم کیا۔ پاکستان ہاکی ٹیم اپنی تیز رفتاری، چستی اور ٹیم ورک کےلئے مشہور ہوئی، ان خوبیوں کی وجہ سے وہ اولمپک اسٹیج پر متعدد فتوحات کا باعث بنے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں، اولمپکس میں پاکستان کی کارکردگی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، خاص طور پر ہاکی کے کھیل میں۔ گزشتہ کئی گیمز میں خراب کارکردگی کے ساتھ، ٹیم نے کامیابی کی انہی بلندیوں تک پہنچنے کےلئے جدوجہد کی ہے جس سے وہ کبھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس کمی کو کئی عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جس میں پاکستانی حکومت کی جانب سے عدم دلچسپی اور حمایت کی کمی کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کےلئے مناسب سہولیات اور وسائل کی کمی بھی شامل ہے۔
اب آپ اولمپک چیمپئین ارشد ندیم ہی کو دیکھ لیں، جسے اس کھیل میں آگے جانے کے لیے ضروری وسائل پر بحث کئی سالوں سے جاری ہے اور تاحال اس حوالے سے کوئی حوصلہ افزا خبر سامنے نہیں آئی تھی۔ ارشد ندیم نے اس مقابلے میں جانے سے قبل رواں برس مارچ میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے پاس ایک ہی بین الاقوامی معیار کی جیولن ہے جو اس وقت خراب حالت میں ہے۔ دوسری جانب ان کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا کے لیے حکومت نے ٹوکیو اولمپکس سے پہلے 177 جیولن خریدے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ اس جیولن کی قیمت سات سے آٹھ لاکھ کے قریب ہے جس کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں اور جیسے تیسے کرکے اسے خریدا گیا۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے لیے اس سال کا بجٹ 2 ارب 34 کروڑ 63 لاکھ روپے رکھا گیا، جبکہ گزشتہ سال بھی کم و بیش اتنا ہی تھا، جو تنخواہوں، پنشن، الاؤنسز کی مد میں چلا جاتا ہے اور محض ایک حصہ ”آپریٹنگ سپورٹس“اور انتظامی اخراجات کے لیے رکھا جاتا ہے۔اور پھر سپورٹس بورڈ میں ایسے ایسے نان پروفیشنل بھرتی کیے جاتے ہیں کہ دیکھ کر اور اُن کی کارکردگی سے گھن آتی ہے۔ تبھی اگرکھیلوں میں پاکستان کی77سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو شروع سے اب تک پاکستان کے230کھلاڑیوں نے 18اولمپکس مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور اس دوران کل ملا کرصرف 11 تمغے جیتے ہیں جن میں 4 سونے، تین چاندی اور چار کانسی کے تمغے شامل ہیں جن میں آٹھ تمغے ہاکی کے مرہون منت ہیں لیکن بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہاکی کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم نہ تو گزشتہ اولمپکس اورنہ ہی حالیہ اولمپکس میں کوالیفائی تک کر سکی ہے جویقینا پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔میرے خیال میں تو ہم اُسی وقت ہاکی سے باہر نکل گئے تھے جب ہم نے اور انڈیا نے آسٹرو ٹرف پر کھیلنے کی رضا مندی ظاہر کی تھی، وہیں سے ہم ہاکی کی دنیا میں پیچھے رہ گئے تھے، اب نہ تو ہمیں کہیں ٹرف دستیاب ہے اور نہ ہی ہمارے کھلاڑیوں کو اس کی پریکٹس ہے۔بات جب پریکٹس کی ہو تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ چند دہائیاں قبل صرف لاہور میں 64گراؤنڈ تھے، جو اب پلازوں میں بدل چکے ہیں، آپ اقبال پارک کو ہی دیکھ لیں، جس نے سینکڑوں نامور کرکٹرز پیدا کیے۔
خیر یہ ہمارا حال ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے 57 اسلامی ممالک کا حال یہی ہے، علم نہیں کہ کیوں ہمارے اسلامی ممالک کھیلوں میں آگے نہیں ہیں؟ بلکہ جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں وہاں آپ کو ممالک کھیلوں میں آگے نظر آئیں گے۔ خیر آپ پہلے اسلامی ممالک کا احوال دیکھ لیں، گولڈ میڈل لینے والے اسلامی ممالک میں سب سے آگے ایران ہے جس نے دو گولڈ میڈل لیے، لیکن وہ بھی لسٹ میں 21ویں نمبر پر ہے، پھر آذربائیجان ہے جس نے دو گولڈ میڈل ہی حاصل کیے مگر اُس کا نمبر 24واں ہے، پھر انڈونیشیا ہے جس نے دو گولڈ میڈل سمیت تین میڈل لیے جسکا فہرست میں 28واں نمبر ہے۔ جس کے بعد پاکستان نے اکلوتا گولڈ میڈل حاصل کیا ہے ، فہرست میں اس کا نمبر 53واں جبکہ ترکی کا 60واں نمبر ہے۔ جبکہ آپ غیر مسلم اور جمہوری ملکوں کی کارکردگی بھی سن لیں کہ گولڈ میڈلز لینے والے ٹاپ 20ممالک میں سے 19جمہوری ممالک ہیں، جبکہ چین نیم جمہوری ملک ہے۔ ان میں امریکا 30گولڈ میڈلز کے ساتھ پہلے، چین 29گولڈ میڈل کے ساتھ دوسرے، آسٹریلیا تیسرے، فرانس چوتھے، برطانیہ پانچویں، جنوبی کوریا چھٹے، اٹلی ساتویں، جرمنی، کینیڈا اور نیوزی لینڈ بالترتیب آٹھویں، نویں اور دسویں نمبر پر ہیں۔ آپ ان ممالک کو دیکھیں اور پھر 25کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان کو دیکھیں، اگر ارشد ندیم گولڈ میڈل حاصل نہ کرتے تو ہم پر ایک بار پھر مایوسی کے بادل چھائے رہتے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ ہمارے نوجوان تیراک محمد احمد درانی 200میٹر فری سٹائل مقابلے کے ابتدائی راونڈ میں آخری نمبر پر رہے۔وہ 11 سیکنڈ کے فرق سے فائنل مرحلے میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہو گئے۔احمد کے علاوہ تیراکی میں پاکستان کی نمائندگی جہاں آراءنبی نے کی اور وہ بھی اگلے مرحلے میں جگہ بنانے میں ناکام رہیں۔ جہاں آرا اپنی ہیٹ میں تیسرے اور مجموعی طور پر 30 تیراکوں میں 26 ویں نمبر پر آئیں۔پھر اسی اولمپکس میں ہمارا حال ایسا نہیں تھا، بلکہ سابقہ ٹوکیو اولمپکس کو دیکھ لیں، جس میں 93ممالک ایسے تھے جو کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کر نے میں کامیاب ہو ئے ہیں جن میں پاکستان شامل نہیں تھا۔قابل افسوس امریہ ہے کہ اس فہرست میں یوگنڈا اور ایتھوپیا جیسے غربت وافلا س کے شکار ممالک بھی چار چار میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں حتی کہ شام جیسا طویل خانہ جنگی اور تباہی وبربادی سے دوچار ملک بھی ان اولمپکس میں تانبے کا میڈل جیت سکاہے۔دنیا کھیلوں کو کتنی اہمیت دیتی ہے اور کھیلوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک دنیاکے سامنے اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کیلئے کھیلوں پر کتنے بھاری بھر کم اخراجات کرتے ہیں ان کا اندازہ دنیا بھر میں ہونے والے کھیلوں پر اخراجات سے لگایا جا سکتا ہے۔ بہرکیف اب بھی وقت ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں وطن عزیز کو نمایاں مقام دلانے کے لئے پالیسی مرتب کی جائے اور ایک کھیل کی بجائے تمام کھیلوں کو اہمیت دی جائے تاکہ ملک میں موجود ٹیلنٹ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔حکمران اپنے عیاشیوں والے اخراجات کو ہی کم کر دے تو ہم اگلی بار ایک دو تمغے مزید بھی لاسکتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس حالیہ برسوں میں، حکومت نے کھیلوں کو فروغ دینے اور کھلاڑیوں کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی ہے۔
مالی معاونت کی یہ کمی پاکستانی کھلاڑیوں کی تربیت اور تیاری میں رکاوٹ بنی ہے، جس سے وہ زیادہ وسائل رکھنے والے ممالک کےخلاف مقابلہ کرتے وقت نقصان میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں ایتھلیٹس کےلئے مناسب سہولیات اور انفراسٹرکچر کی کمی بھی اولمپک کارکردگی میں ملک کی گراوٹ کا سبب بنی ہے۔پاکستان میں بہت سے کھلاڑی مناسب تربیتی سہولیات اور کوچنگ حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کےلئے اپنی پوری صلاحیت تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مناسب تربیت اور وسائل تک رسائی کے بغیر، ایتھلیٹس کےلئے اولمپک اسٹیج پر اعلیٰ ترین سطح پر مقابلہ کرنا تقریبا ناممکن ہے۔پاکستان کے برعکس، بھارت، ایران، اور چین جیسے ممالک نے اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر کھیلوں میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے، جس سے طلبا کو وہ وسائل اور مواقع فراہم کیے گئے ہیں جن کی انہیں اپنے منتخب کھیلوں میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں، مثال کے طور پر، کھیل اسکول کے نصاب کا ایک لازمی حصہ ہیں، اتھلیٹک سرگرمیوں کی ایک وسیع رینج میں حصہ لینے کی ترغیب دی گئی۔ کھیلوں کےلئے اس ابتدائی نمائش سے نوجوان ٹیلنٹ کی شناخت اور نشوونما میں مدد ملتی ہے، جس سے بین الاقوامی سطح پر مستقبل میں کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اسی طرح، ایران میں، کھیلوں کو یونیورسٹی کی سطح پر ترجیح دی جاتی ہے، جس میں کھلاڑیوں کو کامیابی کےلئے درکار وسائل فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ایرانی حکومت نے کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے میں اہم سرمایہ کاری کی ہے، جس میں جدید ترین تربیتی سہولیات اور کوچنگ عملہ شامل ہے، جس سے مختلف کھیلوں میں عالمی معیار کے کھلاڑی تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دوسری طرف چین کھیلوں کی دنیا میں ایک پاور ہاؤس کے طور پر ابھرا ہے، جس کا کھیلوں کا ایک جامع نظام ہے جس کا آغاز نچلی سطح سے ہوتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو پاک فوج اس وقت دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جا تی ہے، کیا افواج میں قابل کیڈٹس اس قابل بھی نہیں ہیں کہ وہ شوٹرز کے مقابلوں میں حصہ لیں سکیں۔ کیا دوڑ میں بھی پاکستان سے ٹیلنٹ نہیں نکل سکتا؟ ہمارے عبدالخالق نے 100میٹر دوڑ میں ایشین ریکارڈ قائم کیا تھا، حوالدار یونس ایشین گیمز میں بھی گولڈ میڈل جیتتے رہے ہیں، اور کیا باسکٹ بال میں بھی ہم کوئی تمغہ نہیں لا سکتے؟ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ نہیں ہے، یہاں ٹیلنٹ ہے، بہت ہے، مگر ہم اُسے صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ تو گراؤنڈ لیول کی گیمز ہیں، جن پر صرف اور صرف سرکار کی سرپرستی کی ضرورت ہے، میرے خیال میں اگر سرکار کو کھابوں اور فنڈز ڈکارنے سے فرصت مل جائے تو یہ یقینا ارشد ندیم کی طرح تمغے بھی لاسکتے ہیں اور ملک کا نام بھی روشن کر سکتے ہیں اور سب سے اہم کہ اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے کہ یہ ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں دھکیل سکتے ہیں!
اس کے علاوہ میں یہاں ایک تجویز دینا چاہوں گا کہ حکومت ارشد ندیم کے نام پر ایک بنک اکاؤنٹ کھول دے اور اُس کی تشہیر کرے، تاکہ عام پاکستانی بھی اگر اُسے کوئی انعام دینا چاہتا ہے تو وہ دے، اور پھر اس فنڈ کو کھلاڑی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے اپنے تئیں اقدام اُٹھائے، میرے خیال میں ایسا ہر اُس کھلاڑی کے ساتھ ہونا چاہیے جو ملک کا بین الاقوامی سطح پر نام روشن کرے!(علی احمد ڈھلوں)۔۔