تحریر ….رفیق چاکر
لکھنا ایک مشغلہ ہے، ایک شوق ہے اور ایک نشہ ہے. جس طرح ایک نشہ کا عادی فرد نشہ کرتے بغیررہ نہیں سکتا اسی طرح جن کو لکھنے کا شوق اور لگن ہو وہ بغیر کچھ لکھے بے چینی محسوس کرتے ہیں.سکول کے زمانے سے اسی لگن نے شاعری کرنے پر مجبور کیا اور حالات بدلتے بدلتے اسی لگن اور شوق نے روزنامہ آساب میں لکھنے پر مجبور کردیا بلوچی اور اردو میں لکھتے لکھتے روزنامہ آساپ کا رپورٹر بنا اور یہ مشغلہ اسی طرح یہ مشغلہ میرے رگوں کی خون کے قطرے قطرے میں شامل ہوگیا کہ اپنی بہترمستقبل اور ایک بہترین سرکاری پوزیشن حاصل کرنے کا جزبہ مجھ میں مکمل طور پر ختم ہوگیا اور صحافتی دُنیا میں لکھنا میرا بہترین مشغلہ اور شوق بن گیا.لکھنے کی چاہت نے پریس کلب اور صحافت سے اس طرح منسلک کردیا کہ بس لکھنا میری زندگی کا بہترین مشغلہ بن گیا.گزشتہ کچھ سالوں سے جب مسائل پر لکھنا شروع کیا اور جن کو میری تحریریں نا پسند ہونا شروع ہوئیں تو بس جب بھی اُن سے ملتا یا اُن سے کسی جگہ ملنے کا موقع ملتا تو یہی طعنہ دے کر دھمکی آمیز انداز میں یہی بتایا گیا کہ سرکاری ملازم صحافت نہیں کرسکتا اور یہی چیز تھی جو مجھ کو خاموش کرسکتا تھا لیکن ایک بار ایک ہمدرد دوست سے اسی جواب نے مجھے مطمئن کردیا کہ جو صحافی باقاعدہ کسی ادارے سے بھی تنخواہ وصول کرتا ہو اور سرکاری ملازمت بھی کر رہا ہو تو اس پر کاروائی ہوسکتا ہے.اس طرح کے لوگوں کی طرف سے یہ الزام لگنا تو روز کا معمول بن چکا ہے اور اس طرح کے الزامات اور دھمکی آمیز لہجے سے بات کرتے ہوئے مجھے بھی صحافت پر ترس آتا ہے کہ صحافت ایک جرم سا بن گیا ہے کہ سرکاری ملازم کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن صحافت نہیں کرسکتا.سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی سے سالوں غیر حاضر رہ کر کسی یونین کا سربراہ بن سکتا ہے.سرکاری ملازم کرپشن کا بازار گرم کرکے قومی خزانے کو لوٹ سکتا ہے.سرکاری ملازم سفید ٹوپی پہن کر منشیات کا کاروبار شوق کے ساتھ کر سکتا ہے اور اُن کو سماج میں جو مقام حاصل ہوگا کسی اور کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا.سرکاری ملازم سڑک کے کنارے بندوق اپنے ہاتھوں تھامے غریب عوام کو لوٹ سکتا ہے سرکاری ملازم سیاسی پارٹی کا رہنما بن کر حکومت کے خلاف نا زیبا الفاظ استعمال کرکے اپنے بیس گریڈ کے آفیسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کو دھمکا سکتا ہے.سرکاری ملازم تنخواہ سرکار سے لے کر سالہا سال ملک سے باہر اپنا کاروبار کر سکتا لیکن لیکن ایک سرکاری ملازم جو لکھنے کو اپنا مشغلہ سمجھ کر لکھ نہیں سکتا اور اپنے علاقے کی قتل و غارت گری،چوری ڈاکہ زنی کی خبروں کو کسی اخبار میں بھیج نہیں سکتا.ایک سرکاری ملازم جو فخر سے کرپشن کا بازار گرم کر رہا ہے وہ معاشرے کے افراد کیلئے قابل برداشت ہے لیکن اپنے خیالات کا اظہار کرنے والا ایک لکھاری جو سماج کی برائیوں کو آشکار کرتا ہے وہ قابل قبول نہیں.اگر سرکاری ملازم شام کو منشیات کا اڈہ کھول کر سماج میں برائیاں پھیلائے تو کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن جب سرکاری ملازم نے اپنے معاشرے میں پسماندگی کا شکار افراد کی حالت زار پر لکھنا شروع کرے تو وہ ناقابل معافی ہے.معاشرے میں سرکاری ملازمین جو سیاسی ورکرز کی روپ میں سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اُن کو آزادی ہے لیکن ایک لکھاری اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتا اور اپنے لکھنے کی مشغلہ کو قائم نہیں کر سکتا.بہتر ہے کہ سرکاری ملازم ایک پریس کلب کا ممبر بن کر وہاں شام کے وقت ایک کتاب پڑھ سکے یا کسی منشیات کے اڈے پر بیٹھ کر سماج کیلئے پریشانیاں پیدا کردے.بہتر ہے کہ سرکاری ملازم صحافی بن کر معاشرے کی خوبی اور خامیوں پر لکھے یا سیاسی ورکر کا روپ دھار کر سماج میں نفرتیں پھیلا دے. بہتر ہے کہ سرکاری ملازم معاشرے میں بسنے والے افراد اور غربت کے ہاتھوں ستائے ہوئے افراد کی حالات زندگی بیان کرے یا منشیات کا کوئی اڈہ چلا کر نوجوانوں کو یہی زہر کھلانا اور پلانا شروع کردے.جب معاشرے سے یہ سب برائیاں پھیلانے والوں کو روک کر اُن کو ملازمت تک محدود کیا جاتا ہے تو سرکاری ملازم لکھنے کا جرات بھی نہیں کرسکتا.جب سرکاری ملازم منشیات کا کام نہیں کرے گا،سرکاری ملازم یونین کا سربراہ نہیں بنے گا،اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر نہیں ہوگا اور سرکاری ملازم کمیشن کے نام کرپشن نہیں کرے گا اور اگر سرکاری ملازم سیاست نہیں کرے گا تو لکھاری صرف سرکاری ملازم بن کر اپنی شوق اور مشغلے کا گردن دبا کر اُس کو ختم کرسکتا ہے. جب یہ سارے ختم ہونگے تو سرکاری ملازم حلفیہ لکھ کر دے گا کہ وہ صحافت نہیں کرے گا۔۔(رفیق چاکر)۔.
