تحریر: انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی ریاست میں گڈگورننس کو یقینی بنانے کے لیے تین اداروں کا فعال کردار ادا کرنا بنیادی اصول ہوتا ہے. ان اداروں میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہیں. اگر یہ ادارے اپنی حدودوقیود میں رہتے ہوئے ریاست کے آئین میں دیے گئے اختیارات کے مطابق کام کرتے رہیں تو ملک بھی ترقی کرتا ہے، عوام کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے. بدقسمتی سے یہ ادارے اس ملک خداداد میں دن بدن تنزلی اور انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے قانون پر عملداری، ناانصافی، کرپشن، ظلم و زیادتی اور معاشرے میں مالی تفاوت کی خلیج بڑھتی جارہی ہے. اخلاقیات کا جنازہ دھوم سے نلکل رہا ہے، ہر پاسے لٹ کا کلچرل عام ہورہا ہے، عنان حکومت نااہل، کرپٹ اور جرائم پیشہ مافیا کے ہاتھ میں چلا گیا ہے. پارلیمنٹ قانون سازی کی بجائے سیاسی مخالفین کی دورگت بنانےاور ممبران کی لٹ و مار بچانے کی آماجگاہ بن چکی ہے. عدلیہ نے انصاف کے لیے دوہرا معیار قائم کر لیا ہے، طاقتور کے لیے رات کو بھی کھل جاتی ہے اور کمزور کو دن میں بھی انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔۔
اب رہ گئی لولی لنگڑی انتظامیہ وہ سیاست دانوں کی لونڈی بن چکی ہے. انتظامیہ میں اگر کوئی افسر عزت نفس قائم رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق قانون کی پاسداری کا عزم کرتا ہے تو اسے اس قدر زچ کردیا جاتا ہے کہ وہ بھاگ جانے میں عافیت سمجھتا ہے. پنجاب میں جب چوہدری صاحب کی حکومت قائم ہوئی تو چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل جو ایک ایماندار، شریف نفس اور کتابی افسر تھے نے غیر قانونی احکامات پر ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے پنجاب میں کام کرنے سے معذرت کرلی. انہوں نے وفاقی حکومت کو اپنی خدمات واپس بلانے کا خط لکھ دیا جواب نہ آنے پر چھٹی پر چلے گئے۔۔ اب انسپکٹر جنرل پولیس فیصل شہکار جو ایک پروفیشنل، ایماندار، قابل اور کھرے افسر ہیں نے پنجاب میں مزید کام کرنے معزرت کرلی. کیونکہ راقم ان کو پچھلے ایک عشرے سے جانتا ہے اور فیصل شہکار ایک نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ کے مالک پولیس افسر ہیں جو اس فورس میں ریفارمز کے زریع اس کا مورل بہتر کرنے کا ایجنڈا رکھتے تھے. ان کا ان خوبیوں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اقوام متحدہ میں بطور مشیر برائے پولیس انتخاب بھی ہوچکا ہے۔۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے مقدمے کے اندراج پر وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور پولیس کی کمانڈ سے معذرت کرلی پنجاب میں چیف سیکرٹری کا عہدہ 16 ستمبر سے عارضی بنیادوں پر چلایا جارہا ہے اور اب پولیس فورس بھی عارضی بنیادوں پر کام کرے گی کیونکہ چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی وفاق کرتا ہے لیکن وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان سیاسی مخالفت اور لڑائی کی وجہ سے پنجاب کی سول اور پولیس انتظامیہ مستقل سربراہ سے محروم رہے گی. اس سے ماتحت افسران کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی اور عام عوام کے مسائل جو تھوڑے بہت حل ہو رہے تھے وہ “کھوہ کھاتے” میں چلے جائیں گے. طاقتور اشرافیہ کے معاملات کو کوئی فرق نی پڑے گا کیونکہ ان کے پاس چپڑقناتیوں کی اک ٹیم ہوتی ہے جو ان کے احکامات کی بجاآوری کو یقینی بنا تی ہے. صوبے میں گورننس اور امن و امان پہلےہی ناپید تھے اب “انی پے ” جائے گی. نہ کوئی پوچھنے والا ہوگا اور نہ کسی باس کا ڈر ہوگا، کرپٹ اور ظلم افسران اپنے اور اپنے سیاسی سرپرستوں کے مذموم عزائم بلا خوف وخطر پورے کریں گے. چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کا عہدہ بے توقیر ہوجائے گا اور پولیس و سول افسران کا احتسابی عمل بھی رک جائے گا. نااہل اور کرپٹ افسران من مانی پوسٹنگ لیں گے اور عوام کی جیبیں خوب دلجمعی سے صاف کریں گے. پنجاب جو ماضی میں گورننس میں اعلی مثال کا حامل جانا جاتا تھا اب اس کوالٹی میں سندھ اور بلوچستان کے برابر کھڑا ہوجائے گا۔۔
سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے عہدے پر تعینات افسران سے ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے کو سے غیرقانونی و آئینی کام کرنے کا مطالبہ کیا یا حکم دیا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پرکشش عہدے چھوڑ دیے. وہ کونسے ناجائز اور غلط کام تھے جو انہوں نے نی کیے اور سیاسی قیادت کو ناراض کرکے سرنڈر کرگئے اور اپنے دامن کو داغ دار ہونے سے بچایا۔۔(انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی)۔۔