تحریر: منصور آفاق۔۔
افواج ِ پاکستان سے اہل قلم کارشتہ حیرت انگیز ہے۔جب میں عسکری اہل قلم کانفرنس کرانے لگا تھا تو مجھ پر یہ عجیب و غریب انکشاف ہوا کہ اردو زبان کے بڑے بڑے نامور شاعروں اور ادیبوں کا تعلق کسی نہ کسی سطح پر افواج پاکستان سے ضرور رہا ہے۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ اردو نظم کے سب سے بڑے شاعر ن م راشد کیپٹن تھے۔اردو کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض بھی کرنل فیض احمد فیض تھے۔وہ کیپٹن بھرتی ہوئے اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک ترقی کی۔انہوں نے آخری جنگ کشمیر کے محاذ پر لڑی تھی۔منیر نیازی جسے حیرت کا شاعر کہا جاتا تھا انہوں نے بھی اپنی عملی زندگی کاآغازفوج سے کیا۔وہ نیوی میں بھرتی ہوئے تھے۔شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کے انفارمیشن کے محکمے میں بھرتی ہوئے۔ڈائرکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔چراغ حسن حسرت بھی میجر تھے۔اردو زبان کے بڑے تنقید نگار مظفر علی سید پاک فضائیہ میں ونگ کمانڈر ہوا کرتے تھے۔سید ضمیر جعفری بھی افواج پاکستان میں میجر تھے۔جنرل احتشام ضمیر انہی کے بیٹے تھے۔بڑی اچھی نثر لکھتے تھے۔ان کے کالموں کا مجموعہ متاعِ ضمیر اس بات کا گواہ ہے۔
اس شعر کے خالق اور بہت ہی خوبصورت شاعر سبط علی صبا کا تعلق بھی افواج پاکستان سے تھا، کرنل محمد خان کی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘، کون ہے جس نے نہیں پڑھی۔میجر جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن کی ’کرنیں، شگوفے، لہریں، مدوجزر، پرواز، پچھتاوے، حماقتیں اور مزید حماقتیں جیسی لافانی کتابیں کیسے بھلائی جا سکتی ہیں۔ بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتابیں پریشر ککر، تادم تحریر اور ہمہ یاراں دوزخ ہر دور میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابیں رہی ہیں۔ ظہور نظر بھی فوج میں رہے۔ایوب صابر بھی حوالدار تھے۔ سراج الدین ظفر بھی پاک فضائیہ میں تھے۔
پھر وہ اہل قلم جنہوں نے ترانے لکھے۔ ان کا تو شمار بھی ممکن نہیں۔ شاید ہی پاکستان کا کوئی اہم یا غیر اہم شاعر ایسا ہو جس نے ترانہ نہ لکھا ہو۔ صوفی تبسم یاد آ رہے ہیں۔ کیا ترانے لکھ گئے ہیں۔ ہائے ہائے۔ ’’ایہہ پتر ہٹاں تے نی وکدے‘‘ اور ’’میریا ڈھول سپاہیا‘‘ کون ہے جسےیاد نہیں۔ اہل قلم کی ایک طویل فہرست ہے جن کا حرف حرف سپاہی کے ہتھیار کی طرح ہے۔ مصرعہ مصرعہ ترانہ ہے۔ ان کے قلم افواج ِ پاکستان کے شانہ بہ شانہ دشمن کے ہر وار کا بھرپور جواب دیتے رہے ہیں۔ ہمیشہ اگلے مورچوں پر اپنے قلم کی تلوار کے ساتھ موجود رہے ہیں۔پچھلے دنوں مجھے ترانوں کی ایک کتاب ”جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑی“ بریگیڈر شاہد محمود نے دی۔اس میں چھیانوے نئے ترانے شامل تھے۔ڈاکٹر اجمل نیازی سے لے کرعمران رضا تک ایسے شاہکار ترانے پڑھنے کو ملے کہ جی خوش ہو گیا۔ترانوں کی ایک کتاب میں نے میجر شاکر کنڈان سے مرتب کرائی ہے۔جس میں حتی المقدور تمام ترانے شامل کئے گئے ہیں۔ابھی اشاعت کے مراحل میں ہے۔
عسکری ادب کا آغازتوگیارہ بارہ سوقبل مسیح سے ہو گیا تھا جب ہومر نے دنیا کی پہلی اپیک لکھی تھی۔عسکری شاعری دنیا کی ہر زبان میں ہوئی۔اردو شاعری کا تو آغاز کرنے والے ہی سپاہی تھے۔اردولفظ کا مطلب ہی لشکر ہے۔ اس زبان نے جنم ہی فوجی چھانیوں میں لیا ۔یہ سلسلہ حضرت امیر خسرو سے شروع ہوتا ہے جو شاعری اور موسیقی میں کمال رکھتے ہوئے ایک بے مثال جنگجو بھی تھے۔انہوں نے بہت جنگیں لڑیں۔اکبر بادشاہ کے سپہ سالار عبدالرحیم خان خانان بھی شاعر تھے۔قلی قطب شاہ جو اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ گولکنڈا کی افواج کے سپہ سالار تھے۔برصغیر میں فارسی زبان کے سب سے بڑے شاعر عبدالقادر بیدل کا پیشہ بھی سپہ گری تھی۔غالب اگرچہ خود سپاہی نہیں تھے مگر وہ سمجھتے تھے کہ قابل ِعزت پیشہ سپاہ گری ہے۔
جعفر زٹلی بھی سپاہی تھے۔رسوا، شاہ حاتم، میرزا محمدرفیع سودا،سراج اورنگ آبادی، خواجہ میر درد،سراج الدین آرزو، میر سوز،قائم چاند پوری،رند، مرزا عظیم بیگ،پنڈت دیا شنکر نسیم حتی ٰکہ مولانا ظفر علی خان بھی فوج میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز رہے۔یقین کیجئے تفصیل کیلئے کئی دفتر درکار ہیں۔لمحہ ِموجود میں بھی عسکری اہل قلم کم نہیں اور بہت اعلیٰ ادب تخلیق کررہے ہیں جن میں سے کرنل اسد محمود، کرنل احمد نواز،عقیل ملک،یوسف عالم گیرین،مدثر عباس،کرنل ابدال بیلا، نسیم عباس،خیال مہدی،ا سکواڈرن لیڈرزاہد یعقوب عامر،لیفٹیننٹ کرنل عمر بن عبدالعزیز،،سعید سادھو، شہزاد نیئر،نثار تاثیر۔ائیر کمانڈر سید احمد رضا کانام درج نہ کرنا زیادتی ہوگی۔(بشکریہ جنگ)