sara inam case aetraf jurm ka koi saboot nahi

سارہ انعام کیس، اعتراف جرم کا کوئی ثبوت نہیں،تفتیشی افسر۔۔

سارہ انعام قتل کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سیشن جج اعظم خان کی عدالت میں سماعت کے دوران تفتیشی افسر پر جرح کی گئی۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن، مقتولہ کے والد انعام الرحیم، پراسیکیوٹر رانا حسن عباس، مدعی وکیل راؤ عبدالرحیم اور وکیل صفائی بشارت اللّٰہ عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران مرکزی ملزم شاہ نواز امیر اور ملزم کے والد ایاز امیر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔وکیل صفائی بشارت اللّٰہ کی جانب سے تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن پر جرح کا آغاز کیا گیا۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ جب ہم جائے وقوع پر پہنچے تو سارہ انعام کی لاش موجود نہیں تھی اور سب انسپکٹر نوازش علی نے بتایا کہ جائے وقوع کا دورہ پولیس نے پہلے ہی کر لیا تھا۔اُنہوں نے بتایا کہ میں نے ملزم کی جائے وقوع پر موجودگی سے متعلق ڈائری میں نہیں لکھا اور جب شاہ نواز امیر کو گرفتار کیا گیا تو میں جائے وقوع پر موجود نہیں تھا۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ اسپتال میں دو ڈھائی گھنٹے موجود رہا، قتل کا کوئی چشم دید گواہ نہیں، کیس میں کسی شخص یا عدالت کے سامنے اعترافِ جرم کا کوئی ثبوت بھی نہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نے مقتولہ کا ٹراؤزر میرے حوالے کیا اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بعد میں دینے کا کہا، میں بعد میں اسپتال گیا تو پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر سے ملا جس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میرے حوالے کی۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ مجھ سے ڈائری میں تحریر کرتے ہوئے غلطی ہو گئی تھی پہلے ڈاکٹر نے صرف ٹراؤزر ہی میرے حوالے کیا باقی چیزیں بعد میں مہیا ہوئیں۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حوالگی کے بعد ملزم شاہ نواز سے تفتیش کی اور جائے وقوع سے بال اور خون ملا۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ مقتولہ کے والد، بھائی اور 2 چچاؤں نے موبائل نمبر پولیس کو نہیں دیے۔اُنہوں نے بتایا کہ مقتولہ کی قمیض، پرس اور دیگر اشیاء ایک ہی جگہ سے مختلف دنوں میں برآمد ہوئیں، ابتدائی بیان میں شاہ نواز امیر نے لکھوایا کہ مقتولہ شور مچا رہی تھی۔تفتیشی افسرحبیب الرحمٰن نے بتایا کہ شاہ نواز امیر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ڈیکوریشن کا ٹکڑا مارا جس سے سارہ انعام زخمی ہو گئیں، اُنہوں نے ابتدائی بیان میں سارہ انعام کو طلاق دینے کا ذکر نہیں کیا، تفتیش مکمل ہونے تک جائے وقوع کو سیل رکھا گیا اور مقتولہ کا موبائل اور کال ریکارڈ حاصل کرنے کی ہدایت کی۔اُنہوں نے بتایا کہ پولیس مقتولہ سارہ انعام کے موبائل نمبر کو ٹریس نہیں کر پائی، مقتولہ کے رشتے داروں نے بھی مجھے سارہ انعام کا نمبر نہیں دیا۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ سارہ انعام قتل کیس کی تحقیقات کے لیے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔اُنہوں نے بتایا کہ میری تفتیشی رپورٹ پر خصوصی تفتیشی ٹیم کے کسی ممبر کے دستخط نہیں ہیں، میں نے ابتدائی رپورٹ میں مقتولہ سارہ انعام کے بازوؤں پر زخموں کا بھی ذکر نہیں کیا۔تفتیشی افسر نے بتایا کہ پوائنٹ نمبر ایک سے آٹھ تک لاش کے حصوں پر خون کے نشانات نہیں تھے اور سائٹ پلان میں فارم ہاؤس کی دیوار اور مرکزی گیٹ کا تذکرہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ جس کمرے سے شاہ نواز امیر گرفتار ہوا اس کمرے میں خون کے نشانات نہیں تھے۔اُنہوں نے بتایا  کہ یہ بات درست ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں صرف سارہ انعام کے سر پر چوٹ اور آلہ قتل کا ذکر ہے لیکن ڈمبل کا ذکر نہیں ہے۔تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ  جس دن سارہ انعام کی لاش ورثاء کے حوالے کی اسی دن پوسٹ مارٹم رپورٹ وصول کی۔اُنہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ دورانِ تفتیش مقتولہ سارہ انعام کا پاسپورٹ برآمد نہیں ہوا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں