تحریر: ذکاءاللہ محسن
سنسنی خیز تبصرے اور گھٹیا ترین پروپگنڈہ کرتے اینکرز نے دوست ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اس سے یوٹیوب پر ان کے سبسکرائبر تو شاید بڑھ جاتے ہوں اور انہیں یوٹیوب سے چند ڈالر بھی موصول ہوجاتا ہو مگر انکی زبان سے نکلنے والے الفاظ جو بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اس کے بدلے میں پاکستان اور اسکے دوست ممالک کے درمیان جو دراڑ پڑے گی اس کا انہیں شاید اندازہ نہیں ہے اندازہ ہوبھی کیسے سکتا ہے جب انہیں ” گوڑتی ” ہی سنسنی خیزی پھیلانے اور بے بنیاد اور حقیقت سے دور خوساختہ سوچوں پر مبنی تبصرے کرنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ ان کو کچھ اور سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو لیکر آجکل جس کا دل کرتا یے وہ اپنا منہ دھوئے بغیر صبح سے شام اور رات گئے تک جھوٹ پر مبنی قصے کہانیاں گھڑنے اور انہیں سنانے سے باز نہیں آ رہا ہے اور میرے لئے حیرت تب زیادہ بڑھ جاتی ہے جب یہ تمام اینکر پاکستان کی موجودہ حکومت کی ” فرینڈلی ” لسٹ میں آتے ہیں ان کو ایسا کیوں لگتا یے کہ پاکستان کے اشاروں پر پوری دنیا چلتی ہے اور مشرق کے واقعے کو مغرب میں ہونے والے واقعے سے جوڑ کر جس طرح یہ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اس سے انکی آمدنی میں اضافہ تو ضرور ہوتا ہوگا مگر دو ممالک کے درمیان حساس نوعیت کے تعلقات میں خرابی ضرور آتی ہوگی انڈین آرمی چیف کے دورہ امارات اور سعودی عرب میں ایسی کونسی انہونی بات ہے جس کو لیکر چند اینکر عام تھڑے والی گفتگو لئے سکرین پر نمودار ہورہے ہیں اور اسکے ساتھ پندرہ سو پاکستانیوں کی سعودی عرب سے بے دخلی کو لیکر شور برپا کیے ہوئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ پندرہ سو پاکستانی ہیں کون تو سعودی عرب میں لگ بھگ 26 لاکھ کے قریب پاکستانی کام کرتے ہیں ان میں سے ہر سال ایسے پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے جو اقامہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں کوئی کمپنی سے بھاگ کر دوسری جگہ کام کرتا یے اور کسی کا اقامہ ختم ہوچکا ہوتا ہے اور دیگر کئی طرح کے مسائل میں پاکستانیوں کی طرح دیگر ممالک کے تارکین وطن کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے گزشتہ ماہ پاکستان ہلال احمر کے چیرمین ابرار الحق بھی پاکستانی قیدیوں کی رہائی کروانے کے سلسلے میں ہی سعودی عرب پہنچے تھے جہاں انہوں نے سعودی ہلال احمر کے اعلی احکام سے ملاقاتیں کیں اور پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے مطالبہ کیا اس کے علاوہ سعودی عرب میں سفارت خانہ پاکستان بھی سعودی احکام سے رابطے میں رہتا ہے کہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو اور وہ جلد اپنے وطن روانہ ہوجائیں، اس حوالے سے پاکستان میں سعودی سفیر نواف المالکی نے بھی وضاحتی بیان جاری کیا ہے کہ ایسے پاکستانیوں کو سعودی عرب سے بے دخل کیا جا رہا ہے جو قانونی دستاویزات کے حامل نہیں ہیں اور یہ محض پاکستانیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے تمام غیر قانونی تارکین کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے اب ہمارے اینکرز کو کون بتائے کہ سفارت خانہ پاکستان میں روزانہ کئی غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانی آتے ہیں اور خود کو پاکستان بھجوانے کے لئے ایمبیسی حکام کی مدد لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ہفتہ بھر جیل میں رہنے کے بعد پاکستان روانہ ہوجاتے ہیں اب اگر قیدیوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں قید سے رہائی پا رہی ہے تو اسکو انڈین آرمی چیف اور دیگر مسائل سے جوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے خدانخواستہ نوکریوں سے بے دخل کرکے پاکستانیوں کو پاکستان روانہ نہیں کیا جا رہا ہے کورونا وائرس کے دوران بھی بہت کم پاکستانی حالات کی وجہ سے کمپنیوں کی نوکریوں سے محروم ہوئے پاکستانی اینکرز پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں وہ پہلے سے ہی بہت مشہور ہیں اس سے زیادہ مشہور نہیں ہوسکتے ہیں ہاں پاکستانی سیاست کو لیکر جو مرضی کریں دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے میں کوئی کردار ادا نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔۔(ذکااللہ محسن)۔۔