تحریر: محمد طلحہ بختیار۔۔
سانحہ کارساز کا دن شاید ہی بھول پاؤں ۔۔صبح چھ بجے گھر سے بائیک پر ائر پورٹ کے لیے نکلے راستے بھر اندرون سندھ سے جیالوں کے قافلے ملتے رہے ہم اگے بڑھتے رہے ۔۔اسٹار گیٹ کے مقام پر ایک کیمپ کے ساتھ بائیک کھڑی کی اور لگ گئے کام پر ۔۔میں اس ٹائم اے ٹی وی میں ہوا کرتا تھا گیارہ سال گزرنے کے بعد بھی یہ دن نہیں بھولا ۔۔ویسے تو کراچی کی تاریخ ایسے دکھ بھرے واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا پر اس دن کی بات کچھ اور تھی دوسروں کی طرح مجھے بھی محترمہ کو دیکھنےکی کی جلدی تھی جبکہ بینظیر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کے جیالے ملک بھر سے پہنچے ہوئے تھے ہم بھی بینظیر کی جھلک دیکھنے کے لئے اونچی اونچی بلڈنگوں پر چڑھ کر کیمرہ کی آنکھ سے زوم کر کے بینظیر بھٹو کو ڈھونڈتے اور کوریج کرتے رہے ناچتی گاتی لیاری کی عورتیں ۔۔۔غرضیکہ ہر کوئی اپنے تئیں محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال میں لگا تھا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا کیونکہ محترمہ آٹھ سال کی جلاوطنی کاٹ کر وطن آرہی تھی م۔۔حترمہ بینظیر بھٹو نے عوام کا سمندر دیکھا تو اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکی اور آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔ بینظیر بھٹو کو کیا پتا تھا کہ ان کے جیالوں پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے چند منٹوں کا راستہ گھنٹوں میں طے ہو رہا تھا صبح سے شام ڈھلی اور رات بھی ہو گئی بارا بج کے کچھ منٹ پر جیسے ہی استقبالیہ جلوس کارساز پہنچا ایک کے بعد ایک دو دھماکے ہوئے چیخ پُکار کی آوازیں ہر زخمیوں کے ساتھ کھڑے لوگ بھی مدد کے لئے چلا رہے تھے امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ایمبولینسوں کے سائرن میں زخمیوں کی آوازیں دب گئیں انسانی جسم گوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل ہو گئے 160 سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں سے دسیوں ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو گئے بینظیر بھٹو کے بلٹ پروف ٹرک کے قریب ہوے دوسرے دھماکے میں اے آر وائی کے کیمرہ مین عارف بھی شہید ہوے پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے جیالوں کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہ کر سکی جبکہ اس واقعے کی دو ایف آئی آر درج ہوئیں اپنی آنکھوں کے سامنے کتنی ہی ماؤں کے لخت جگروں کو مرتے دیکھا دوستوں اس پوسٹ کو کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے پیچھے اپنی زندگیوں کو برباد نہ کرو اپنے پیاروں اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت بتاؤ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالو اتنے نہ گرو کہ حضرت انسان کہلانے کے لائق بھی نہ رہو۔(محمد طلحہ بختیار)۔۔
(محمد طلحہ بختیار کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔