تحریر: مسرور احمد
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے جس نے پاکستان کے مستقبل کو زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1971 سے پہلے کا پاکستان آج کے پاکستان سے بہت مختلف تھا۔ بنگالیوں کی وجہ سے ملکی نظام میں ایک توازن برقرار تھاجو بنگال کی علیحدگی کے بعد ختم ہو گیااورجاگیرداروں، افسر شاہی اور فوج پر مشتمل مغربی پاکستان کی کوتاہ بین اشرافیہ بے لگام ہو گئی۔کیونکہ مغربی پاکستان کی سیاست پر اکثرو بیشتر جاگیرداروں کا تسلط تھا جبکہ مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کی بڑی تعداد وکلاء، اساتذہ اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین پر مشتمل تھی۔ 1971 سے پہلے پاکستان کا ہر ادارہ ترقی کر رہا تھا جبکہ اس کے بعد توازن کے بگڑنے سے اداروں میں بتدریج زوال آنا شروع ہوااور اس وقت ہم ہر شعبے میں زوال کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، کیونکہ ملک پر مسلط مخصوص طبقہ بنگال کی علیحدگی کے بعد شتر بے مہار ہو گیا۔ گو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پس منظر میں فوج، مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور افسر شاہی کے منفی رویوں پہ تو بہت لکھا جاتا ہے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان میں بھارت، سابقہ مشرقی پاکستان کے ہندوؤں اور مکتی باہنی کے کردار پر اتنی زیادہ روشنی نہیں ڈالی جاتی اور عمومی طور پر تمام تر صورتحال کی ذمہ داری اس وقت کی فوجی حکومت کی نااہلی پر ڈال دی جاتی ہے جو بے جابھی نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی فوجی شکست میں یحیٰ خان کی طرف سے کسی باقائدہ جنگی منصوبہ بندی کا فقدان ایک اہم عنصر تھا۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے متعدد عوامل ہیں جو ہماری اس وقت کی اشرافیہ کے اقتدار پرستانہ رویوں کی وجہ سے نمو پاتے رہے اور ہماری آج کی اشرافیہ میں اقتدار پرستانہ رویوں اور اقتدار کی ہوس پہلے سے بھی زیادہ محسوس کی جاسکتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں دیگر عوامل میں سے بھارت، مشرقی پاکستان کے ہندوؤں اور مکتی باہنی کے عوامل پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور یقینا ان عوامل کا سانحہ مشرقی پاکستان میں کردار ہماری نااہلی کا مرہون منت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی تقسیم مسلمانوں کیلئے ایک نئے ملک پاکستان کی صورت میں اگر کامیابی تھی تودوسری طرف ہندوؤں کیلئے اس میں شکست اور اہانت کے احساسات نمایاں تھے، اگرچہ ہندوستان کی تقسیم میں کانگریس کے رویوں کا زیادہ عمل دخل تھا۔ مجموعی طور پر ہندو تاریخ کے اس فیصلے کو قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں تھے۔پاکستان کے دونوں حصوں میں ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ اسی لئے قائد اعظم نے انگریز سرکار سے ملک کے دونوں حصوں کو ملانے کیلئے خشکی کے راستے کا مطالبہ کیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان کی معیشت اور تعلیم پر ہندوؤں کا غلبہ تھا۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی اسّی(80)فیصد قومی دولت پر ہندو قابض تھے۔ شہری املاک اور عمارتوں کی اکثریت بھی زیادہ تر انھیں کے قبضے میں تھی۔دوسری طرف قرار داد مقاصد کی منظوری اور ملک کی اسلامائزیشن کے عمل کے بعدیہاں کی ہندو اقلیت نے خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ ملک کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے اس صورتحال میں واپس انڈیا کی راہ لی جس سے ہندوؤں نے مسلم اکثریتی ملک میں خودکو مزید غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیاتھا۔مشرقی پاکستان میں موجود ۰۹۲۱ ہائی سکولوں اور ۷۴ کالجوں کے ۵۹ فیصد پر بھی ہندوؤں ہی کا کنٹرول تھا۔اس پس منظر میں قیام پاکستان کے بعد ہندو اساتذہ نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اساتذہ طلباء کیلئے جو کتب تجویز کرتے، ان میں سے بیشتر نظریہ پاکستان کے خلاف مواد پر مشتمل ہوتیں۔ متعدد تعلیمی اداروں میں بابائے قوم کی بجائے گاندھی اور نہرو کی تصاویر آویزاں کرنے کو ترجیح دی گئی۔ دو قومی نظریہ اور پاکستان مخالف اور خاص کر کمیونسٹ لٹریچر صوبے بھر کے چائے خانوں، عام مقامات، ریستورانوں، سکولوں اور ریلوے بک سٹالز پر عام پایا جاتا تھا۔مغربی پاکستان کی نسبت مشرقی پاکستان میں بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندو کم تعداد میں تھے۔ بہت سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کے صرف بیوی بچے بھارت مقیم تھے سو ہندو جو کچھ مشرقی پاکستان میں کماتے بھارت بھیج دیتے۔ دوسری طر ف پاکستان سے اشیائے صرف سمگل ہو کر بھارت جانا شروع ہو گئیں اور بھارت سے پاکستان دشمن لٹریچر آنے لگا۔ اس وقت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر سال ساٹھ کروڑ روپے کا سرمایہ بھارت منتقل ہو رہا تھا جن میں ہندو سیٹھ اور اراکین اسمبلی ملوث تھے جن کی سیاسی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو سمگلنگ کے خلاف آپریشن بند کرنا پڑا۔1947 میں بھارت سے ہجرت کرنے والے مسلمان سرمایہ داروں نے مغربی پاکستان میں بسنے کو ترجیح دی۔بھارت سے مشرقی پاکستان ہجرت کرنے والے عام مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور ان کی فوری بحالی اور روزگار کی فراہمی مشکل امر تھا۔شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں عوامی لیگ علاقائی مفادات کی پرجوش علمبردار تھی چنانچہ اسے مقامی ہندوؤں کی جو سیاسی اور معاشی میدان میں غیر معمولی اثرورسوخ کے حامل تھے، بھرپور امداد میسر آ گئی۔مشرقی پاکستان کے ہندواراکین اسمبلی کھلم کھلا بھارتی ہائی کمیشن کے احکامات پرمختلف پارٹیوں کی حمائیت یا مخالفت کرتے تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام میں مکتی باہنی کے کردار کوبھارت کے وزیر اعظم مودی بھی تسلیم کر چکے ہیں جنھیں رقوم خرچ کر کے بھارتی سرزمین پر تربیت دی گئی تھی۔ ایک بنگالی ہندو صحافی ایس براتا کے مطابق مکتی باہنی دراصل بھارتی سپاہیوں ہی کی ایک تنظیم تھی۔ انھیں بھارتی فوج کے قائم کردہ پچاس سے زیادہ تربیتی مراکز میں تربیت دی گئی۔ مکتی باہنی کے لوگوں کو بھارت کی طرف سے توپیں اور مارٹر فائر بھی مہیا کئے گئے۔گارڈین اخبار کے ایک تجزیے کے مطابق مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی تعداد اسّی ہزار سے ایک لاکھ تک تھی جو ان کے خلاف برسرپیکار پاکستانی فوجیوں کی تعداد سے بھی زیادہ تھی۔ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے مکتی باہنی کے اراکین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک تھی۔مکتی باہنی کے اراکین کی تخریب کارانہ سرگرمیوں نے پورے صوبے کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا جس سے ڈھاکہ کا نٹرکانٹی نینٹل ہوٹل تک محفوظ نہیں تھا۔انھوں نے نہ صرف بجلی گھروں، پلوں اور تعلیمی اداروں کو تباہ کیا بلکہ کئی بینکوں کو بھی لوٹ لیا۔ بھارت نے پراپیگنڈا کو نفسیاتی ہتھیار کے طور پر بھر پور استعمال کیااور بنگلہ دیش کے کاز کیلئے دنیا بھر کی ہمدردیاں جیت لیں اور عالمی رائے عامہ کو خود ساختہ داستانوں کے زریعے یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا۔ مثال کے طور پر آل انڈیا ریڈیو نے متعدد پروفیسروں کی ہلاکت کی خبر نشر کی جس کی تردید ان پروفیسرز نے خود ڈھاکہ ٹیلیویژن پر آ کر کی۔ پروفیسر رحمان سبحان کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں پاکستانی فوج نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ مگر بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ امریکہ میں زندہ سلامت موجود ہیں۔ دوسری طرف مکتی باہنی کے ساتھ ساتھ باقائدہ بھارتی فوجیں بھی علی الاعلان مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں۔
قومیں ایسی صورتحال سے دوچار ہوتی رہتی ہیں لیکن اس وقت پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جنگ بندی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی۔ مصری فوج ہتھیار ڈالنے والی تھی کہ سادات نے اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی حاصل کر لی۔ بھارت کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا کشمیر میں تھا اور اس نے اقوام متحدہ کے زریعے جنگ بندی کی سہولت حاصل کر لی تھی اور بعد میں استصواب رائے سے مکر گیا۔ مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کے بعد ہم بھی جنگ بندی کی شرائط کو اپنے الفاظ میں پیش کر سکتے تھے۔ لیکن اس آپشن کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ہم سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات پر غور کرنے اور اپنی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ملک کی سمت کو درست کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا زندہ قومیں کرتی ہیں۔ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے زندہ قوم کا رویہ کبھی اپنا پائیں گے؟یہ ایک مشکل سوال ہے۔(مسرور احمد)