Fawwad Raza

ثنا خوانِ تصدیقِ مشرق کہاں ہیں؟؟؟

تحریر:  فواد رضا

 سارا سوشل میڈیا رابی پیرزادہ کی نیوڈز پر تبصروں سے بھرا پڑا ہے۔۔ رابی پیرزادہ کے نیوڈز پر بعد میں بات کریں گے پہلے تو بات انکی ہو جو صبح شام آزادئ اظہار رائے کا درس دیتے نہیں تھکتے، اور دوسروں کے معاملے میں ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ پرائیویسی بریچ سائبر کرائم کے زمرے میں آتی ہے۔چیخیں تب نکلتی ہیں جب انکا کوئی میسیج لیک کردیا جائے۔رابی اور اس سے پہلے فورچیونر والی ویڈیو نے جس طرح سوشل میڈیا پر غلبہ حاصل کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قوم برہنگی کی کس قدر بھوکی ہے حالانکہ برہنہ بدن تو بیت الخلا کے آئینے میں اپنا بھی دیکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں سب کو رابی کی نیوڈز ہیں درکار ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر تقدیسِ مشرق کاراگ الاپتے نہیں تھکتے ، فرانس اگر حجاب پر پابندی لگاتا ہے تو ہماری آوازیں سارا زمانہ سنتا ہے اور اپنے گھر میں ہمارے رویے۔۔۔۔۔تف ہے۔

رابی کی ویڈیوز والے معاملے پر سب اپنے منہ کے مطابق غلاظت اگل رہے ہیں، کسی کا خیال ہے کہ یہ پبلسٹی اسٹنٹ ہے تو کسی کے خیال میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا فون ہیک ہوگیا ہے، ایک صاحب اسے بھارت کو دی جانے والی دھمکیوں کے سبب بھارتی ہیکرز کی کارروائی گردان رہے ہیں توایک اور حضرت اسے ریونج پورن قرار دے رہے ہیں ۔۔

اب زرا بات کرتے ہیں کہ یہ ویڈیوز بنی کیوں؟؟؟کیا میں آپ کو بتاؤں کہ ہمارے معاشرے کا یہ سیاہ چہرہ کس قدر خوفناک ہے، یہاں ہر دس میں سے ایک لڑکی انہی کاموں کے سبب بلیک میلنگ کا شکار ہے، ہم میں سے کتنے ہیں جن کے موبائل فون ایسے رازوں کےامین ہیں یا پھر ہمارے ایسے راز دوسروں کے سیل فونز میں موجود ہیں۔فرسٹریشن کی انتہا کو پہنچے ہوئے اس معاشرے کا حال یہ ہے کہ ایک بار سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے لیے ایک ڈمی آئی ڈی بنائی تھی۔۔۔ نجانے کتنے مردوں نے اس آئی ڈی پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجتے ہی اپنی ڈک پکس ارسال کی تھیں، کچھ تو ایسے دوستوں کی ہیں کہ اگر میں ڈیلیٹ نہیں کرتا تو انکے پاس خودکشی کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔۔۔ لڑکیاں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں ، کتنےنہیں خوبرو جوان ہیں جنہیں لڑکیاں خود اپنی تصاویر بھیج کر کہتی ہیں کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کردینا۔۔رابی پیرزادہ ہمارے معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جہاں 99 فیصد عوام پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔اس نگری سے اگر کوئی شے نکل کر عوام کے درمیان آجائے تو وہ اسے ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے عربوں نےپہلی بارہاتھی کو دیکھا تھا۔۔

ہم مڈل کلاس یا مذہبی ذہن کے حامل لوگوں کے لیے تو شاید رابی ایک ایسے گناہ کی مرتکب ہوچکی جس پر اب تک اس کے باپ بھائی کو اسے قتل کردینا چاہیے تھا لیکن دوسری جانب اس ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جہاں یہ سب چیزیں معمول کی بات ہیں۔ اب یہ ہماری اور آپ کی خوش قسمتی یا بد قسمتی کہ ہم وہاں تک رسائی نہیں رکھتے۔ اگر آپ رسائی نہیں رکھتے تو پراڈکشن سے تعلق رکھنے والے کسی بندے سے بیک اسٹیج کا منظر پوچھ لیں آپ کے دل کی دھڑکنیں بے تاب اور کانوں کی لویں سرخ نہ ہوجائیں تو کہیے گا۔۔۔لیکن وہاں یہ سب معمول ہے۔

سائبر کرائم تو اس معاملے کا ایک پہلو ہے ہی اور اس کا مقدمہ بھی درج کیا جاچکا لیکن اس معاملے کا سماجی پہلو ہولناک ہے۔ ہم میں سے اکثر ذہنی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے کے بدن سے بھی پیرہن کھینچ لیں، بطور قوم یہ ذہنی پستی کی انتہا ہے جہاں ایک اداکارہ کی ویڈیو اگر لیک ہوجائے تو ملک کا ہر شخص آٹا، دال، چینی کاحصول چھوڑ کر ان ویڈیوز کے حصول کے لیے بیتاب ہوجاتا ہے۔یاد رکھیں، اگر آپ مذہبی ذہن کے حامل ہیں تب تو یہ عمل ویسے ہی گناہ کبیرہ ہے اور اگر آپ میری طرح لنڈے کے لبرل ہیں تو بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی کی نجی تصاویر اور ویڈیوز لیک کرنا اگر قانونی جرم ہے تو ایسی ویڈیوز کی خواہش کرنا بھی ایک سنگین معاشرتی جرم ہے۔

اگر آپ تک ایسی چیزیں پہنچ بھی رہی ہیں تو بہتر یہ ہے کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کردیں اور انہیں آگے ترسیل کرکے معاشرے کے نفسیاتی مسائل میں مزید اضافہ نہ کریں۔(فواد رضا)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں