تحریر: احسان سبز۔۔
آج میں نے سماء ٹی وی کے نیوزروم میں ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایسا منظر جو طویل عرصے تک مختلف میڈیا اداروں میں کام کرنے کے باوجود نہ کبھی نظروں سے گزرا نہ کبھی محسوس کرنے کا موقع ملا۔ دوپہر دو بجے کے وقت تھا، داخلی کاریڈور سے اچانک غیرمانوس لوگ نیوزروم میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ ضعیف العمرخواتین، بوڑھے حضرات، لڑکیاں، گودوں میں بچےاٹھائے ہوئے جوان اور دیگر جن کے حلیے بتارہے تھے کہ وہ کسی خاص مقصد کے لئے یہاں جمع ہورہے ہیں۔ پوچھنے پر ایک ساتھی نے بتایا کہ یہ سماء کی ٹاؤن ہال میٹنگ کی تیاریاں ہیں جس میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانے والے ملازمین کو سرٹیفیکیٹس اور کیش پرائزز دئیے جاتے ہیں۔اتنے میں ڈائریکٹر نیوز فرحان ملک نے مائک سنبھالا اور مختصر تمہید کے بعد تقسیم انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہر وِنر کو انعام اُسکی فیملی کے ہی کسی فرد سے دلوایا جائے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے لئے کچھ بات کریں۔ انعام جیتنے والے پر تو بات کرنا بنتی ہے لیکن انعام دینے والے پر کیوں بات ہو؟ اس سوال کاجواب یوں ملا کہ انعام دینے والے ہی نے دراصل انعام وصول کرنے والے کو اس قابل بنایا کہ وہ ایواڈ وننگ پرفارمنس دے پائے۔لوگ آتے رہے اور انعام وصول اور سپرد کرتے رہے۔ ایک دوسر ے کا شکر بجا لاتے ہوئے جس کو جس کے لئے جو الفاظ ملے وہ نچھاور کرتے رہے۔ ذہین نوجوانوں کے لئے تالیاں بجیں، محنتی وفاشعار بیویوں کے لئے تالیاں بجیں، والہانہ محبت کرنے والی بہنوں کے لئے تالیاں بجیں، خوشی سے اُچھلتے سیٹیاں بجاتے بھائیوں کے لئے تالیاں بجیں، فخر سے سینہ پُھلائے والد صاحبان کے لئے تالیاں بجیں اور سب سے بڑھ کر بار بار ماتھے چومتی ، جھولایاں پھیلا پھیلا کر دعائیں دیتی اور آنسو صاف کرتی ماؤں کے لئے تالیاں بجیں ۔۔بطور نیوجوائننگ مجھے ان میں سے زیادہ تر کی Accomplishments کے بارے میں علم نہیں تھا لیکن سماء کے نیوز روم میں بندھا ہوا یہ سماء مجھ سمیت ہر کسی سے بے اختیار تالیاں بجوارہا تھا۔ تقریب کے دوران بھی بنیادی عملہ رن ڈاؤن ڈیسک پر اور اینکر اسٹوڈیو میں اپنی سیٹ پر براجمان رہیں، اور اسٹینڈ بائے موڈ میں رہنے والے بھی کام کرتے کرتے اپنے حصے کی تالیاں بجاتے رہے۔ آخر میں اطہر متین شہید سے منصوب ایک خصوصی انعام کااعلان ہوا۔ چہروں کے رنگ بدلنے لگے، خاموشی چھا گئی، سر جُھک گئے، جنھیں مجمعے میں آنسو چھلک جانے کا خوف تھا انھوں نے چہرے اکڑا کر دانت مضبوطی سے بھینچ لئے اورجو یہ ناکرسکے انھوں نے آنکھ میں کچھ پڑ جانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے خود کو اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ساتھ مشغول کرلیا۔سماء کے دوست اطہر کو آج بھی کتنی شدت سے چاہتے ہیں اس کا اظہار میرے لئے ناقابل تحریر ہے۔
تقریب کے اختتام تک ہال میں موجود ہر شخص کا چہرہ شدت جزبات سے تمتما رہا تھا کہ اچانک ڈائریکٹر فرحان ملک نےمحتاط انداز میں کچھ الفاظ ادا کرنے اور اس بِیچ خاموشی کے مختصر وقفوں کے بعد سما کو الوداع کرنے کا اعلان کردیا۔۔جی ہاں ۔۔ الوداع ۔۔
اور پھر ۔۔۔۔وقت ۔۔۔۔۔ چند لمحوں کیلئے رُک گیا۔اس بے یقینی کی کیفیت میں سب ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے انھوں نے کچھ غلط سنا ہو۔لیکن ۔۔فیصلہ ہوچکا تھا، جس پر اگلے چند منٹوں میں زبردست ردعمل سامنے آنا شروع ہوا۔کئی ایک نے اپنے عہدے ، رُتبے اور منصب کو سائیڈ میں کر کے دوٹوک فیصلہ سنا دیا کہ آپ کہیں نہیں جارہے۔کچھ فیصلے پر نظر ثانی کے لئے انہیں گھیر کر قائل کرتے دکھائی دئیے، کچھ کو یہ فکر کھانے لگی کہ جو سب کچھ ہورہا ہے وہ آپ کے بغیر اب کیسے ہوگا؟۔۔سوالوں کی بوجھاڑ ہوگئی اور وہ جواب دیتے دیتے اپنے کیبن میں داخل ہوگئے، کچھ دیر بعد چند ایک کیبن میں سے مایوسی کی حالت میں باہر نکلے اور اُن میں سے ایک کونے میں اُکڑوں بیٹھ کر زور زور سے رونے لگا۔ کسی کو کسی جیتے ہوئے کے لئے اس طرح زاروقطار اور ہچکیاں لے لے کر روتے دیکھنا میرے لئے پہلا تجربہ تھا، یوں محسوس ہوا جیسے ان آنسوؤوں کی پیچھے کئی داستانیں چُھپی ہیں۔ دوستی کی داستانیں، باہمی عزت اور اخلاص کی داستانیں، سما ٹاؤن ہال کی تالیوں کی داستانیں، اطہر شہید کے غم کو ایک ساتھ سہنے کی داستانیں، ساتھ گزارے دنوں میں خبروں کا ‘سماء’ تبدیل کردینے کی داستانیں ۔۔(احسان سبز)۔۔