salman iqbal ko shamil e tafteesh kia jae | ISPR

سلمان اقبال کو شامل تفتیش کیا جائے،آئی ایس پی آر۔۔

ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل بابرافتخار نے کہاہے کہ ارشد شریف کی ناگہانی موت کے افسوسناک واقعہ کی صاف شفاف تحقیقات بہت ضروری ہے اور اس کیلئے ہم نے حکومت سے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن کی استدعا کی گئی ہے اگر اس کمیشن کو اگر بین الاقوامی ایکسپرٹس، فرانزک ،آئی ٹی ایکسپرٹس ،یواین نمائندوں کی ضرورت ہوتو انہیں بھی شامل کرنا چاہئے ان تمام حالات وو اقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال کاذکر بار بار آتا ہے لہٰذا انہیں پاکستان واپس لایا جانا چاہئے اور شامل تفتیش کرنا چاہئے ۔راولپنڈی میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہاکہ ارشد شریف کی وفات ایک دور افتاہ علاقے میں ہوئی اور کینیا پولیس نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں تو ان کی وفات کی خبر سب سے پہلے کس نے اور کس کو دی، کینیا کی پولیس اور حکومت نے اس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ واقعی ہی یہ غلط شناختی کا واقعہ تھا یا نہیں یا ٹارگٹ کلنگ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ بہت سے سوالات جواب طلب ہیں اس افسوسناک واقعہ کی صاف شفاف تحقیقات بہت ضروری ہے اور اس کیلئے ہم نے حکومت سے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن کی استدعا کی گئی ہے اگر اس کمیشن کو اگر بین الاقوامی ایکسپرٹس، فرانزک ،آئی ٹی ایکسپرٹس ،یواین نمائندوں کی ضرورت ہوتو انہیں بھی شامل کرنا چاہئے ان تمام حالات وو اقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال کاذکر بار بار آتا ہے لہٰذا انہیں پاکستان واپس لایا جانا چاہئے اور شامل تفتیش کرنا چاہئے ۔لیفٹیننٹ جنرل بابرافتخار نے کہاکہ ارشد شریف کی ناگہانی موت کے بعد سوشل میڈیا پر مخصوص لوگوں نے فوراًالزامات کا رخ فوج کی جانب موڑنا شروع کردیااس سفاک موت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے انکشاف کیا ہےکہ  “ہماری اطلاع کے مطابق ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، ان کو بار بار باور کرایا جاتا رہا کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے”۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے  کہنا تھا کہ ارشد شریف صاحب تو نومبر 2021سے ہی نجی ٹی وی  اے آر وائی کے پلیٹ فارم سے اداروں پر تنقید کر رہے تھے، انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے بہت سخت پروگرامز بھی کیے ، لیکن اس کے باوجود ہمارے دل میں نہ ان کے خلاف کسی قسم کے کوئی منفی جذبات تھے اور نہ ہیں ۔ کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کرتے تھے لیکن وہ باہر نہیں گئے ،آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں اور یہ ان کا آئینی حق ہے، تمام چینلز سے جب بھی ہم نے بات کی تو کہا کہ سائفر کو لیکر کسی بھی ادارے پر من گھڑت اور بنا ءکسی ثبوت کے کسی قسم کا کوئی الزام نہ لگایا جائے ، اور فوج کے اے پولیٹکل سٹانس کو متنازعہ نہ بنایا جائے ۔

  ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ  آج دیکھنا ہو گا کہ ارشدشریف سے متعلق اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، 5 اگست 2022ءکو  خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا تھا، جس میں شبہ ظاہر کیا گیا  تھا کہ افغانستان میں موجود  تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی )گروپ نے ایک میٹنگ کی ہے اور وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاقوں میں  ارشد شریف کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کسی بھی قسم کی مزید معلومات شیئر نہیں کی گئیں، کہ کیسے اور کس نے کے پی حکومت کو یہ اطلاع دی کہ ارشد شریف کو ٹارگٹ کیا جا نا ہے؟ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا ہ جس کا مقصد شائد ارشد شریف صاحب کو ملک چھوڑ جانے پر آمادہ کرنا تھا ، جب کہ اطلاعات ہیں کہ ارشد شریف  ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، لیکن بار بار ان کو باور کرایا جاتا رہا کہ ان کو خطرہ لاحق ہے ،۔ 8اگست 2022ءکے شہاز گل کے نجی ٹی وی کے پلیٹ فارم سے پاک فوج میں بغاوت پر اکسانے کے بیان کو تمام مکاتب فکر نے ریڈ لائن کراس کرنے کا کہا گیا ۔ 9اگست کو شہباز گل کو گرفتار کیا گیا ، اس متنازعہ ٹرانسمیشن سے متعلق نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے سینئر وائس صدر عماد یوسف سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کے اس چینل کے صدر سلمان اقبال نے انہیں فوراً ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر بھیج دیا جائے ۔اس کے جواب میں عماد یوسف نے بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کے لیے روانہ ہوں گے، او ر پھر اس سے متعلق متواتر بیانیہ بنایا گیا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائے گا۔ دریں اثنا خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈی جی کا کہنا تھاکہ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، وہ ہمارے ادارے کے لوگوں سے بھی رابطے میں تھے اور واپسی کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا، دانستہ طورپر تحقیقاتی ٹیم سے آئی ایس آئی کے ممبران نکلوائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ شہید بہت قابل صحافی تھے، ذاتی طورپر عزت کرتا ہوں، سیاسی آراءسے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ان کی اپنے کام سے لگن سے انکار نہیں، معلومات اور تفتیش کی بنیاد پر بتاسکتا ہوں کہ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، وہ ہمیشہ سے ہی ان کے خاندان میں غازی اور شہید ہیں، ان کا ہمارے اپنے ادارے کے لوگوں سے بھی رابطہ تھا، جب باہر گئے تو بھی رابطہ تھا، اس مہینے بھی رابطہ رکھا، واپسی کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔انہوں نے بتایا کہ میں کینیائی ہم منصب سے بھی رابطے میں ہوں، ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ایک شناخت کی غلطی تھی ، حکومت پاکستان اور ہم مکمل مطمئن نہیں، اسی لیے ٹیم اور کمیشن بنایاگیا ، میں نے دانستہ طورپر آئی ایس آئی کے ممبران ان دونوں فورمز سے نکال دیئے تاکہ قوم کے سامنے غیر جانبدار شفاف تحقیقات پیش کی جاسکیں۔ جو بھی نتیجہ نکلے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر آپ کو آگاہ رکھیں گے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں