تحریر: شمعون عرشمان۔۔
پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار”جنگ” کے مطابق۔۔”معروف کاروباری شخصیت کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری اور ایک اینکر پرسن میں جھگڑا ہوگیا۔دونوں میں سو شل میڈیا پر پہلے سے ہی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری تھا ۔وفاقی وزیرکو شکایت تھی اینکر پرسن نے ان کے خلاف پر وگرام کیے تھے۔گذشتہ رات شادی کی تقریب میں گفتگو کے دوران دونوں میں تلخ کلامی ہو گئی جس کے بعد وہ گتھم گتھا ہوگئے – تقریب میں شریک مہمانوں نے بیچ بچاو کرایا -تقریب میں گورنر پنجاب چوہدری سرور , وزراء و دیگر سیاسی و کاروباری شخصیات بھی شریک تھیں”۔۔فواد چوہدری اور نجی ٹی وی کے اینکر کے واقعے پر صحافی برادری کا ردعمل بھی آنا شروع ہوگیا ہے،کراچی سمیت مختلف شہروں میں پریس کلبز کے باہر مظاہرے ہوئے۔فیصل آباد میں شادی کی تقریب میں تھپڑ پڑنے پر سینئر صحافی سمیع ابراہیم نے فیصل آباد کے تھانہ منصورآباد میں اندراج مقدمہ کے لیے درخواست دائر کردی ہے اور استدعا کی ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیاجائے ۔ دوسری طرف وفاقی وزیر نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ وزارت جاتی ہے تو جائے ، پھر آجائے گی ۔
تھپڑپڑنے کے بعد عارف حمید بھٹی سمیع ابراہیم کے حق میں آگے آئے توفوادچوہدری نے انہیں بھی کھری کھری سنادیں ۔عارف حمید بھٹی نے ٹوءٹر پر لکھا کہ ’’طمانچہ سمیع ابراہیم کے چہرے پر نہیں ،پاکستان کی صحافت اور جمہوریت کے منہ پر ہے ۔ صحافی اور صحافی یونین، پریس کلب اس آمرانہ عمل پر احتجاج کرتے ہیں ۔ فواد چودھری کو سزا دینا ہوگی ۔ آمریت کا مقابلہ کرنے والے صحافیوں کو دبایا نہیں جا سکتا‘‘عارف حمید بھٹی کے اس ٹوئیٹ پر فوادحسین چوہدری نے لکھا کہ ’’آپ کو غصہ صرف امیر anchors کیلئے کیوں آتا ہے جب عابد راہی جیسے سیلف میڈ غریب صحافیوں کو سمیع ابراہیم جیسے مافیاز تنخواہیں نہیں دیتے ،اس وقت آپ کی صحافت خطرے میں کیوں نہیں آتی? دراصل صحافت کو خطرہ زرد صحافیوں سے ہے اور زرد صحافت کیخلاف مہم چلانا ہو گی‘‘ ۔ان دونوں صاحبان کے اس جھگڑے میں ثنا بچہ بھی کود پڑیں ۔خاتون نے ٹوءٹر پر لکھا کہ ’’ فوادچوہدری کو تھپڑنہیں مارناچاہیے تھا ، البتہ بھٹی صاحب کو کوئی بتادے کہ سمیع ابراہیم نے آمریت کا اتنا ہی مقابلہ کیا ہے ، جتنا بھٹی صاحب نے اے آروائے کا کیا ہے‘‘ ۔
تقریب میں موجود لوگوں نے سمیع ابراہیم سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں ہوا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے پروگراموں میں ان پر تنقید کی تھی جب کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی ایک ایسا ٹوئٹ کیا تھا جس میں میں نے انکشاف کیا تھا کہ فواد چوہدری تحریک انصاف کے اندر ایک گروپ بنا رہے ہیں جس کو وہ پیپلز پارٹی سے ملوانا چاہتے ہیں جس پر فواد چوہدری نے مجھے دھمکیاں بھی دی تھی اور اب تقریب میں انہوں نے ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔دوسری طرف فیصل آباد کے تھانہ منصورآباد میں اندراج مقدمہ کیلئے سینئر صحافی نے درخواست بھی دیدی جس میں سمیع ابراہیم نے موقف اپنایا کہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے وہ اپنے دوستوں ارشد شریف، رئووف کلاسرا، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اور پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی فرخ حبیب کے ہمراہ آئے تھے ، اس دوران وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ان پر حملہ کردیا، انہیں تھپڑمار ا اور گالیاں دیں، سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں لہٰذا مقدمہ درج کیاجائے ۔
’’لائیو وِد نصر اللہ ملک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہناتھا کہ جو لوگ بھی مجھے جانتے ہیں وہ اس بات سے واقف ہیں کہ میں سخت سے سخت تنقید بھی بڑے حوصلے سے برداشت کرتا ہوں اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید کبھی میرا ایشو نہیں رہا ،سمیع ابراہیم کا معاملہ بالکل مختلف ہے ، چند ماہ قبل جب میں وزیر اطلاعات تھا اور ہم نے ٹی وی چینلز کو چار کیٹگریز میں تقسیم کیا اور 70 فیصد ریٹس کم کئے تو سمیع ابراہیم اپنے مالک اور سی ای او کو لے کر میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے ٹی وی کی اے کیٹگری کر دیں،جس پر میں نے انہیں کہا کہ ایسے نہیں ہو سکتا ،کیٹگریز تو ریٹنگ کے اوپر ہیں اور آپ کا چینل تو ریٹنگ میں کہیں ہے ہی نہیں ،میں اگر آپ کے ٹی وی چینلز کی کیٹگری اے کر دوں گا تو پھر عملی طور پر کیٹگریز ختم ہی ہو جائیں گی،اس موقع پر انہوں نے کچھ اور مطالبات بھی کئے ،جس کے بعد ایک چپقلش شروع ہو گئی ،اسی دوران بول ٹی وی کے ایک سینئر رپورٹر نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ میری بیوی بیمار ہے اور بول ٹی وی والوں نے میرے ڈھائی لاکھ روپے دینے ہیں لیکن وہ مجھے چالیس ہزار روپیہ بھی نہیں دے رہے،جس پر میں نے پیمرا کو لکھا کہ اگر بول ٹی وی اپنے ملازم کو چالیس ہزار روپیہ بھی نہیں دے سکتے تو پھر یہ ٹی وی چینل کیسے چلا رہے ہیں ؟جس ٹی وی چینل میں ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور انتظامیہ بالکل بھی تعاون نہیں کر رہی اس پر پیمرا ریگولیشن بنائے،میری اس ہدایت پر جب پیمرا نے بول ٹی وی کو نوٹس جاری کیا تو اُنہوں نے گذشتہ پانچ ماہ سےمیرے خلاف باقاعدہ مستقل مہم شروع کر دی جسے میں برداشت کر رہا ،پھر میں نے ایف آئی اے اور پیمرا میں درخواست دی،اب آ کر انہوں نے مجھے کہا کہ میں ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہوں اور را کے لئے کام کر رہا ہوں ،آپ ایک وفاقی وزیر کو یہ کہیں کہ یہ را کا ایجنٹ ہے تو اس سے زیادہ توہین آمیز بات ہو ہی نہیں سکتی،گذشتہ رات میاں حنیف کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں یہ واقعہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن سمیع ابراہیم نے میرے سامنے آ کر بد تمیزی کی کوشش کی لیکن زیادہ لوگوں کی وجہ سے میں نے کہا کہ میں اس بدتمیزی کی اجازت نہ ہی دوں ۔فواد چوہدری نے کہا کہ مجھے تھپڑ مارنے کی بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا لیکن میں اب تک ہر جگہ گیا ہوں،میں پیمرا میں گیا ہوں ،میں ایف آئی اے میں گیا ہوں لیکن کسی ادارے کے سر پر جوں نہیں رینگی ،میں ایک وفاقی وزیر ہوں لیکن کسی نے اب تک کچھ نہیں کیا ،یہیں سے آپ اندازہ کر لیں کہ ملک میں احتساب کی کیا حالت ہے؟کوئی ادارہ بھی کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ، روز لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں،کوئی ادارہ یہاں پر فنگشنل ہی نہیں ہے ،پھر آپ کریں کیا ؟ان حالات میں دو ہی آپشن بچتے ہیں یا تو آپ خود ان کو سبق سکھا لیں یا پھر بے عزتی برداشت کر لیں اور خاموش ہو کر بیٹھ جائیں ۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہتک عزت کا قانون مذاق بنا ہوا ہے ،ججز بھی اس معاملے کو سنجدہ نہیں لے رہے ،بول ٹی وی نے پوری سوشل میڈیا ٹیم ہائر کی اور میرے خلاف منظم مہم شروع کی ،سوشل میڈیا میں پیڈ گروپس ہیں جو 15 ہزار روپیہ لے کر ٹرینڈ بناتے ہیں،یہی گروپ سوشل میڈیا پر پیسے لے کر دوسروں کی ماں بہن ایک کرتے ہیں ،سیاسی جماعتوں کے بھی بڑے بڑے گروپس ہیں ،یہ گروپس اس لئے ہیں کہ عدالتیں ہتک عزت قانون پر ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی ہیں اور کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ صحافتی تنظیمیں کیا بڑے بڑے اینکرز کے تحفظ کے لئے بنی ہیں یا یہ اپنے ورکرز کے لئے بنی ہیں ؟جن صحافیوں کو آٹھ آٹھ ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی یہ صحافٹی تنظیمیں اس پر تو بولتی نہیں ہیں،ہر ایک کی زندگی میں کئی لڑائیاں ہوتی ہیں اور بعد میں سوچا جاتا ہے کہ یہ لڑائی نہ ہی ہوتی تو اچھا تھا ۔دریں اثنا وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید نے بھی فواد چودھری کا صحافی کو تھپڑ مارنے کوزیادتی قرار دیا۔۔(شمعون عرشمان)۔۔