punjab kpc noon league ka mustaqbil makhdoosh hai

سختیوں کا دور پھر شروع ہوسکتا ہے، سہیل وڑائچ۔۔

عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے ابھی سیاسی نظام کے اندر کوئی گنجائش نہیں نکالی جارہی بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ سختیوں کا دور پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔ریاست پہلے سب کچھ (ن) کے وزیر اعظم کو دینا چاہتی تھی ،تاہم پھر مخلوط حکومت بنانا پڑی مگر اب بھی ہم تیزی سے بنگلہ دیش ماڈل کی طرف ہی جا رہے ہیں ۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار  سہیل وڑائچ نے اہم انکشافات کر دیئے ۔جنگ ” میں شائع ہونیوالےتازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ  جیسے تیسے یا کیسے بھی دوتہائی اکثریت والی حکومت بن گئی ہے۔دھاندلی، ناانصافی، زور زبردستی کہیں یا اسے پاکستانی روایات کے عین مطابق قرار دیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریاست نظام کو آگے چلانا چاہ رہی ہے۔ انتخابات سےپہلے کہا جا رہا تھا کہ اگلی حکومت کو دوتہائی اکثریت ملے گی اور وہ بنگلہ دیش ماڈل کی طرح اقتصادی ترقی پر فوکس کرے گی۔ مقتدرہ، عدلیہ اور تمام ادارے شیخ حسینہ واجد کی طرح وزیر اعظم کی بھرپور حمایت کریں گے اور سیاسی مخالفوں کو حکومت کے راستے میں مزاحم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ الیکشن کے غیر متوقع نتائج نے ریاستی منصوبوں پر ضرب تو لگائی مگر یہ منصوبے اب بھی اسی ٹارگٹ کی طرف جاری و ساری ہیں۔ کور کمانڈرزکانفرنس کا اعلامیہ بتا رہا ہے کہ 9مئی کے ذمہ داروں کیلئے کوئی معافی نہیں، گویا عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے ابھی سیاسی نظام کے اندر کوئی گنجائش نہیں نکالی جارہی بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ سختیوں کا دور پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔ گویا ریاست سیاسی استحکام کا راستہ مفاہمت میں نہیں دباؤ  میں دیکھ رہی ہے۔کالم میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ بنگلہ دیش ماڈل میں مرکزی کردار سویلین وزیراعظم کا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگر سیاسی گڑ بڑ رہی، مظاہرے سڑکوں پر آگئے تو کہیں ہم برما (نیا نام میانمار) ماڈل کی طرف نہ چلے جائیں، جہاں کی فوجی جنتا نے 2021سے اقتدار سنبھال رکھا ہے وہاں کی پاپولر لیڈر آن سان سوچی مسلسل جیل میں ہے، ملٹری جنتا کو چین سے معاشی مدد حاصل ہے جبکہ مغربی دنیا اس سے ناراض ہے مگر اسکے باوجود برما فوجی جنتا کی سربراہی میں چلتا جا رہا ہے ۔ ہمیں جتنی جلدی اس کا ادراک ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے، کسی زمانے میں امریکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے کافی حساس ہوا کرتا تھا مگر ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس کی دلچسپی بہت کم ہوگئی ہے۔کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غیرمتوقع انتخابی نتائج نے ریاست کو ایک بڑا ’’شاک‘‘ دیا تھا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع ہوگئی تھی لیکن اب ریاست دوبارہ سے سنبھل رہی ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں