خاتون اینکرپرسن غریدہ فاروقی نے دعویٰ کیاہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان لاپتا نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ اپنی مرضی سے روپوش تھے اور اپنی مرضی سے ہی سامنے آئے ہیں ۔ٹویٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے غریدہ فاروقی کا کہناتھا کہ 15 جون 2023 سے خود ساختہ روپوش ہونے والے اعظم خان اچانک سامنے آگئے! ان کا کہنا تھا کہ وہ پشاور اپنی مرضی سے گئے تھے۔ اعظم خان نے مزید کہا کہ وہ سائفر کی گمشدگی کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھے جس میں ان کی غلطی شامل نہیں تھی۔ اعظم خان پہلے لاہور میں روپوش رہے۔ حالیہ دنوں میں اپنے عزیزوں، دوستوں سے مشورے کے بعد ازخود سامنے آنے کا فیصلہ کیا، متعلقہ تھانے گئے، جہاں انہیں مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے کہا گیا۔جو لوگ یہ جھوٹا بیانیہ بنا رہے ہیں کہ اعظم خان لاپتہ تھے؛ یہ وہی جھوٹے لوگ ہیں جو سائفر سازش کے جھوٹے بیانیے میں شامل تھے اور اب اپنی شامت آئی دیکھ کر اول فول حیلوں بہانوں سے اصل مدعے سے توجہ ہٹانے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف جیونیوز کے مطابق سینئر صحافی حامد میر نے اعظم خان کے اعترافی بیان کے معاملے پر حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ 2022 کو سیکرٹری خارجہ نے اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو بتایا کہ ایک سائفر ہے اس پر اعظم خان نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود وزیراعظم کو اس حوالے سے زبانی کچھ چیزیں بتاچکے ہیں۔حامد میر نے بتایا کہ یہ سائفر اعظم خان کے حوالے کیا گیا، اعظم خان نے 9 مارچ کو عمران خان کو یہ سائفر دکھایا جس کے بعد عمران خان نے یہ سائفر اپنی تحویل میں لے لیا، اعظم خان نے وزیراعظم کو بتایاکہ سیکریٹ ڈاکیومنٹ ہے اس میں اصول و ضوابط کا خیال رکھیں لیکن پھر بھی عمران خان نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔سینئر صحافی کے مطابق اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے بعد یہ ڈاکیومنٹ پھر نظر نہیں آیا، اعظم خان نے 8 سے 9 دن بعد عمران خان سے پوچھا کہ بحث شروع ہوگئی ہے آپ نے سائفر جلسے میں دکھادیا اب دفتر خارجہ کو یہ واپس چاہیے، اس پر عمران خان نے اعظم خان سے کہا کہ وہ ان سے گم ہوگیا ہے، اس پر اعظم خان نے تشویش ظاہر کی اور عمران خان سے کہا کہ یہ خفیہ ڈاکیومنٹ ہے اس کا گم ہونا ہمارے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔حامد میر کے مطابق سائفرپر کابینہ میٹنگ میں بھی بات ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی میں بھی یہ بات ہوئی، واضح ہے کہ سائفر پر عمران خان نے جو بیانیہ بنایا وہ دراصل سیاسی مقاصد کے لیے بنایا گیا، آفیشل سیکریٹ کے مندرجات کچھ اور تھے مگر اس کی بنیاد پر سیاست کی گئی جو قومی مفاد کے خلاف تھا۔حامد میر نے مزید کہا کہ تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ سائفر 8 مارچ کو وزیراعظم ہاو¿س بھیجا گیا اور پھر بنی گالا میں اسے عمران خان کے حوالے کیا جس کے بعد یہ فائل واپس دفتر خارجہ نہیں آئی، پرنسپل سیکرٹری آفس میں بھی اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
سائفرکی کہانی، سینئر اینکرز کی زبانی۔۔
Facebook Comments