aik tabah saath | Imran Junior

’’ سہولت کار‘‘۔

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، سہولت کار اب اتنا ہی بدنام ہوگیا ہے، جتنا ہمارے کپتان کا کسی بات کا نوٹس لینا ۔۔ یعنی ہمارا کپتان جس چیز کا نوٹس لیتا ہے وہی چیز عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے۔۔ کپتان نے مہنگے پیٹرول کا نوٹس لیا، پیٹرول غائب ہوگیا، ڈھونڈنے سے بھی نہیںمل رہا تھا، آخر کار فوری طور پر مہینے کے آخر میں مہنگا کیا تو پھر کہیں جاکر نظر آیا۔۔ مہنگی چینی کا نوٹس لیا، سفید چینی’’ بلیک ‘‘ ہونے لگ گئی۔۔ آٹے کا نوٹس لیا، بحران کھڑا ہوگیا۔۔ لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیا، بجلی پہلے سے زیادہ جانے لگ گئی۔اب تو عوام دعا کرتے ہیں کہ کپتان کو کسی بات کی خبر نہ ہو، بس جیسے تیسے گزارہ کرلیں۔۔بات ہورہی تھی سہولت کار کی۔۔آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس کے بعد حملہ آوروں کی مدد کرنے والے ’’ سہولت کاروں‘‘ کی شامت آگئی ، بڑی تعداد میں پکڑ دھکڑ ہوئی ، کچھ کو تو میڈیا کے سامنے بھی پیش کردیا گیا۔۔ خواتین تک نے دہشت گردوں کوبرقع میں چھپاکر اسلحہ لاکردیا۔۔ ایک نے رکشے میں لاکر یونیورسٹی ڈراپ کیا، ایک نے یونیورسٹی کانقشہ فراہم کیا۔۔’’ سہولت کار‘‘ کا ترجمہ دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے، سہولت فراہم کرنے والا۔۔

ویسے تو سہولت فراہم کرنے کا یعنی آسانیاں فراہم کرنے کے لئے ہمارے مذہب کا بھی حکم ہے، مگر دہشت گردوں کو یا جرائم پیشہ عناصر کو سہولت فراہم کرنے کا مقصد، انہی کے ساتھ جرم میں برابر کا شریک ہونا ہے۔۔ جو ناقابل معافی ہوگا۔۔مقامی پولیس تھانے میں ایک تفتیشی پولیس افسر کی آسامی نکل آئی۔ ایک پہاڑی دیہاتی نے بھی ملازمت کی درخواست دے دی۔ اس کو انٹرویو کیلیے بلا لیا گیا۔ انٹرویو لینے والے نے پہاڑی دیہاتی سے بے شمار سوال کیئے۔ دیہاتی بے چارہ ان کے خاص تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ آخر میں انٹرویو لینے والے افسر نے پوچھا کہ ، ” بتاؤ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو کس نے قتل کیا تھا؟” پہاڑیا بے چارہ ا سکا بھی جواب نہ دے سکا۔ انٹرویو لینے والا تنگ آچکا تھا ، اس کے کہنے لگا کہ تم ایسا کرو کہ گھر جاؤ اور معلوم کرو کہ انہیں کس نے مارا تھا؟۔۔پہاڑی دیہاتی گاؤں واپس آیا تو کسی نے پوچھا کہ۔۔ سناؤ میاں! کیسا رہا انٹرویو؟ جاب شاب ملنے کا چانس ہے یا نہیں۔۔۔پہاڑی کہنے لگا،۔۔ لو دسو! جاب کا چانس ؟ مجھے تو تفتیش کیلئے کیس بھی مل گیا ہے۔

کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔۔ کچھ لوگوں کو پیار سے سمجھایاجاسکتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کان کے نیچے دو لگانا باعث ثواب ہوتا ہے۔۔ جیسے چوہدری ایک سرکاری دفتر میں کلرک تھا۔ ایک دن اس کا باس اس کے پاس آیا اور کہنے لگا۔۔چوہدری، تیرے پاس سو روپے کا کھلا ہے؟۔۔چوہدری خوش مزاجی سے بولا۔۔۔ کیوں نہیں، موتیاں والیو۔۔۔ ہنے ہی دینا واں۔۔ افسر اس انداز تخاطب سے گرمی کھا گیا، کہنے لگا۔۔ چوہدری۔۔۔ یہ ایک دفتر ہے کسی دکان کا تھڑا نہیں جو اس طرح سے اپنے افسر کو مخاطب کررہے ہو۔ تم مجھے سر جی کہہ کر بلایا کرو۔ میں دوبارہ سو روپے کا بھان مانگتا ہوں اور تم سر جی کہہ کر بات کرنا۔۔۔ سمجھے!!۔۔ چوہدری ڈانٹ کھا کر سہم گیا، کہنے لگا۔ ۔ٹھیک ہے سر جی۔۔۔ منگو!! ۔۔افسر نے چوہدری سے بھان مانگا۔ چوہدری نے ایک لمحے کو سوچا اور بولا۔۔ سر جی ! اہیہ سرکاری دفتر ہے گا۔۔ کوئی کریانے دی دکان نہی جے تسی بھان منگن آ گئے او۔

کچھ ’’ سہولت کار‘‘ ایسے بھی ہوتے ہیں جیسے۔۔ ایک شہری بابو اپنی چم چم کرتی کار اور چھم چھم کرتی بیگم کے ساتھ ایک دیہاتی سڑک پر خراماں خراماں اور آس پاس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا جارہا تھاکہ اچانک پکی سڑک ختم ہو گئی اور کچی سڑک کا ایک ٹوٹا آ گیا، اس کچی سڑک پر بے پناہ کیچڑ تھا، اور کار کیچڑ میں پھنس گئی، شہری بابو نے بہت زور لگایا لیکن کار اندر دھنستی چلی گئی۔۔ اتنے میں ایک دیہاتی کسان اپنے ایک گدھے کے ساتھ ادھر سے گذرا، شہری بابو نے اس سے مدد مانگی۔ کسان نے کہا کہ وہ مدد تو کر دے گا، لیکن اس کے لیئے وہ پانچ سو روپے لے گا۔ بابو نے کہا کہ ٹھیک ہے، یہ لو پیسہ۔۔کسان نے رسہ ڈال کے گدھے کو جوتا، خود بھی زور لگایا اور پل میں کار کو کیچڑ سے نکال دیا۔ کسان نے کہا کہ’’ آج یہ دسویں کار ہے جس کو ہم نے دھکا لگایا ہے‘‘۔۔۔ بابو بولا کہ سارا دن تو تم نے دھکا لگانے میں گذار دیا، کھیتی باڑی کب کرتے ہو؟ رات کو ہل چلاتے ہوگے؟ ۔۔کسان بولا کہ نہیں جناب، رات کو میں ہل نہیں چلاتا، رات کو تو میں سڑک کے اس کچے ٹکڑے کو پانی لگاتا ہوں۔۔

بات ہورہی تھی سہولت کاروں کی۔۔ واپڈا والے بھی ایک طرح سے سہولت کار ہیں۔۔ عوام کو بجلی فراہم کرنے کی سہولت دیتے ہیں، لیکن جس طرح سے لوڈشیڈنگ کرتے ہیں ، جس طرح سے اووربلنگ کرتے ہیں اس حساب سے تو یہ’’ سہولت کار‘‘ بھی قابل معافی نہیں۔۔ پولیس والے عوام کے جان و مال کے محافظ ہیں، انہیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں، لیکن جس طرح سے یہ سہولت کار عوام سے اپنا ’’حصہ‘‘ وصول کرتے ہیں اور کرپشن کرتے ہیں اس حساب سے تو یہ ’’ سہولت کار‘‘ بھی قابل معافی نہیں۔۔ ڈاکٹرز بھی مسیحا ہوتے ہیں، تڑپتے سسکتے مریضوں کو نئی زندگی بخشتے ہیں لیکن جب یہ ہڑتال کرکے مریضوں سے علاج کی سہولت چھین لیتے ہیں تو پھر یہ ’’ سہولت کار‘‘ بھی بچنے نہیں چاہیئے۔۔ٹرانسپورٹرز بھی سہولت فراہم کرتے ہیںلیکن تہواروں پر دگنا کرایہ اور ہڑتال کردیتے ہیں۔۔پیٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے باوجود کرائے کم نہیں کرتے،اس حساب سے تو یہ ’’ سہولت کار‘‘ بھی قابل گرفت ہونے چاہیئے۔۔ہمارے معاشرے میں اس طرح کے سہولت کاروں کی کئی اقسام ہیںجنہیں عوام کبھی معاف نہیں کرینگے اور قانون کے محافظوں کو بھی اس قسم کے سہولت کاروں کیلئے رحم کا کوئی جذبہ نہیں رکھنا چاہیئے۔۔

اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔شکست تاخیر ہے مگر شکست ناکامی نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں